ججوں کی توہین پر 34 TV چینلز کو نوٹس مصطفی کمال کی معافی مسترد دوبارہ شوکاز نوٹس


سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں مصطفیٰ کمال کی فوری معافی اور شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا فی الوقت مسترد کردی،عدالت نے فیصل واوڈا سے توہین عدالت کے شوکاز نوٹس پردوبارہ ایک ہفتےمیں جواب طلب کرلیا، عدالت نے آئندہ سماعت پر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کردی،عدالت نے متعلقہ پریس کانفرنسز نشر کرنے والے تمام ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا، سحرش خان کی رپورٹ


چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی، مصطفیٰ کمال کے وکیل فروغ نسیم نے کہامصطفیٰ کمال نےغیرمشروط معافی نامہ جمع کرایا ہے، مصطفیٰ کمال نے ربا کی اپیلوں کے تناظر میں بات کی تھی، ربا کی اپیلوں پر جلد سماعت کی استدعا ہے،چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ ربا کا کیس کہاں زیرالتواء ہے؟ فروغ نسیم نے جواب دیا شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیلیں زیر التواء ہیں، چیف جسٹس نے کہا شریعت اپیلیٹ بنچ کے ایک رکن انتقال کرچکے ہیں، بنچ مکمل ہونے پر ہی سماعت ہوسکے گی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا مصطفیٰ کمال فیصل واوڈا سے متاثر ہوئے تھے یا پریس کانفرنس اتفاق تھا؟ فروغ نسیم نے جواب دیا پریس کانفرنس محض اتفاق تھا،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپکی نظر میں مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس توہین آمیز تھی؟ فروغ نسیم نے جواب دیا میری ذاتی رائے میں پریس کانفرنس توہین آمیز نہیں تھی،چیف جسٹس نے کہا توہین عدالت نہیں کی تو معافی کیوں مانگ رہے ہیں؟ ہم پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتے ہیں، ارکان اسمبلی کے حوالے سے ہم نے کبھی گفتگو نہیں کی، پارلیمان آئینی ادارہ ہے، قوم پارلیمان اور عدلیہ کا احترام چاہتی ہے، ارکان اسمبلی پر اداروں کا احترام زیادہ لازم ہوتا ہے، جہاں غلطی ہو اس کی نشاندہی ضرور کریں،ججز تنقید کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں، سینیٹرز تو زیادہ سلجھے ہوئے لوگ ہونگے،آپ کہیں مقدمات تاخیر سے لگتے ہیں یہ جائز تنقید ہے،کیا مصطفیٰ کمال اپنی پریس کانفرنس کو توہین آمیز سمجھتے ہیں؟فروغ نسیم نے جواب دیا مصطفیٰ کمال ایک دو جملے توہین آمیزسمجھتے ہیں اسلیے معافی مانگ رہے، چیف جسٹس نے کہا مصطفیٰ کمال نے پریس کانفرنس میں معافی نہیں مانگی،فروغ نسیم نے جواب دیا مصطفی کمال پریس کانفرنس میں بھی معافی مانگنے کو تیار ہیں،

چیف جسٹس نے کہا مصطفیٰ کمال نے گفتگو پارلیمان میں نہیں نیشنل پریس کلب میں کی تھی،ارکان اسمبلی کا آئین میں دیا گیا مقام بہت بلند ہے، آئین میں عدلیہ کی آزادی کا بھی تذکرہ ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں عدلیہ کو ڈرا دھمکا کر گالیاں دے کر فیصلے لے لو،گالی گلوچ کرنے والے کس سے متاثر ہیں اختلاف رائے کے بھی قواعد ہیں، اسلام سے دور ہوکر ہر بندا گالم گلوچ پر اترا ہوا ہے، فیصلوں پر جتنی مرضی تنقید کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں، عدلیہ اور پارلیمان کو لوگوں نے لڑنے کیلئے نہیں بنایا، آپ کو کوئی جج بے ایمان لگتا ہے تو ریفرنس دائر کریں،چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں قرآن پاک منگوا لیا اور وکیل حافظ عرفات کو سورہ احزاب کی آیات پڑھنے کی ہدایت کر دیچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آزادی اظہار رائے کے نام پر ٹی وی چینلز جھوٹ کا پرچار کر رہے ہیں،کیا پریس کانفرنس دکھانے والے تمام 34 چینلز کو بھی نوٹس جاری کریں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری ہونے چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کسی کو کچھ کہنا تھا تو ہمارے منہ پر آ کر کہ دیتے،کیا اتنی گالم گلوچ کسی اور معاشرے میں ہے؟جتنی گالیاں مجھے پڑی ہیں اپنے حوالے سے نوٹس کبھی نہیں لیا، فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال نے عدلیہ کے حوالے سے بات کی ہے،ملک سے باہر بیٹھ کر ٹویٹ چلا رہے ہیں، ملک میں آکر چلائیں نا، تھوڑی سی ہمت دکھائیں، یہ پیغام ملک کو دینا چاہتے تھے لیکن پیمرا نے کورٹ رپورٹنگ پر پابندی لگا رکھی ہے،
جسٹس عرفان سعادت نے کہا فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس میں کہا گیا جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس بابر ستار کے حوالے سے پریس کانفرنس کررہا ہوں، فیصل واوڈا نے دو انتہائی معتبر ججز کےخلاف پریس کانفرنس کی اور الزامات لگائے، چیف جسٹس نے کہا فیصل واوڈا نہ وکیل ہیں نہ بار کے عہدیدار تو عدلیہ پر کس حیثیت میں پریس کانفرنس کی؟ کیا ہم نے کبھی کہا ہے کہ کس سینیٹر نے کبھی گفتگو کی یا نہیں کی کتنی مرتبہ حاضر رہا، اخبار میں آتا رہتا ہے کتنے سیبیٹرز غیرحاضر رہے کتنوں نے منہ ہی نہیں کھولا، سروس میں کسی کو توسیع دے دی کہیں ووٹ دے دیا، فیصل واوڈا اپنے الفاظ کا دفاع کرنا چاہتے ہیں تو ہم سننے کو تیار ہیں،چیف جسٹس نے کہا ہم ٹی وی چینلز کو کتنا جرمانہ کر سکتے ہیں؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا چونتیس منٹ جس چینل نے نشر کی ایک لاکھ فی سیکنڈ کے حساب سے جرمانہ ہوگا،توہین عدالت پر چھ ماہ سزا بھی ہوسکتی ہے،فروغ نسیم نےکہا مصطفی کمال کو جاری توہین عدالت کا نوٹس واپس لینے کی استدعا ہے،چیف جسٹس نے کہا فی الحال نوٹس واپس لینے کے بجائے مصطفی کمال کا کنڈکٹ دیکھنا چاہتے ہیں، ٹی وی چینلز کو بھی توہین آمیز پریس کانفرنس نشر کرنے پر نوٹس کرنا چاہتے ہیں، رکن پارلیمان کو توہین عدالت میں سزا ہو تو کیا نتائج ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا سزا ہوجائے تو پانچ سال کیلئے نااہلی ہوتی ہے، چیف جسٹس نے کہا ہماری عزت کریں ہم دس گنا زیادہ عزت دینگے عدالت نے اٹارنی جنرل کو پریس کانفرنس کے توہین عدالت پر مبنی مواد کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کردی اوروکیل حافظ یاسر عرفات کو توہین آمیز تقاریر اور گفتگو پر شرعی احکامات پیش کرنے کی ہدایات کردی، کیس کی سماعت 28جون تک ملتوی کردی گئی۔