روزنامہ نوائے وقت کے سابق ریزیڈنٹ ایڈیٹر شہزاد انور فاروقی وزیر اعظم کے دورہ چین سے امیدیں لگاکے بیٹھیں ہیں اس دورے کے حوالے سے اپنے قسطوار کالم کے دوسرے اور آخری حصے کا اختتام وہ یوں کرتے ہیں “ سی پیک کے دوسرے فیز سے بلوچستان کی محرومیوں کو ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔شہباز شریف ملکی تاریخ کے ایک مشکل مقام پر اس دورے کے لئے جارہے ہیں تو میں صرف اتنا کہوں گا کہ جا تینوں رب دیاں رکھاں
وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ چین
تمام دوست اور نقاد اب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان شہباز شریف کے پہلے دورہ چین پر نظریں جمائے ہوئے ہیں،دوست اس لئے کہ وہ اس دورے سے اچھی امیدیں لگائے ہوئے ہیں اور نقاد اس لئے کہ وہ بتا سکیں کہ آٹے گوندھتے ہوئے ہلنا کتنی بری بات ہے۔تنقید برائے تنقید بطور قوم ہمارے مزاج میں سرایت کرچکی ہے اور اس کے نتیجے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم اپنے قومی اور ریاستی مفاد سے غافل ہوتے جارہے ہیں۔چین ایک بھروسہ مند دوست اور ہمسایہ ہے جو ہمارے داخلی معاملات اور اندرونی سیاسی اختلافات سے کوئی سروکار نہیں رکھتالیکن نادان دوست اداروں کے بعد اب دوست ممالک کو گھسیٹ کر اقتدار کے کھیل کا حصہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔معاملات کی خرابی سے ان کو کچھ حاصل نہیں ہوگامگر جب تک ان کو اس بات کی سمجھ آئے گی بہت دیر ہوچکی ہوگی اور میرے منہ میں خاک تب کھیل کسی اور ہاتھ میں جا چکا ہوگا۔چین کے اس دورے کو کامیاب بنانا وزیراعظم شہباز شریف کے کسی ذاتی مفاد میں نہیں وہاں طے پانے والے معاملات کے بہت دوررس نتائج ہونگے اور فائدہ صرف اور صرف پاکستان اور عام پاکستانی کا ہوگا۔اہل چین وزیراعظم کو شہباز شریف سے زیادہ شہباز سپیڈ کے نام سے جانتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں بات چیت میں طے پانے والے منصوبوں کے حوالے سے چینی حکام یہ یقین رکھیں گے کہ سب کچھ پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ یہ امر ذہن میں رکھیں کہ چینی قوم خود بھی مشکل ادوار سے گزری ہے اور مشکل فیصلوں پر تیز رفتاری سے عمل پیرا ہونے کی شہرت رکھتی ہے ایسے میں ان کی جانب سے کسی دیسی اور سست معاشرے کے فرد کو سپیڈ کا نام دینا اپنی جگہ ایک منفرد بات اور اعتراف ہے۔چار سے آٹھ جون تک جاری رہنے والے اس دورے کے دوران ان کی صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی کیانگ سے ملاقاتیں ہیں جن سے خطے اور پاکستان کے مسائل پر بڑی پیش رفت متوقع ہے۔ اس دورے میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک)کے نئے یا دوسرے فیز کے آغاز کے حوالے سے اہم فیصلہ سازی متوقع ہے۔ماضی قریب میں یہ کہا سنا جاتا رہا ہے کہ سی پیک پر کام روک دیا گیا ہے یا سست کردیا گیا ہے،وزیراعظم شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر موجودگی مستقبل میں ایسے کسی اندیشے یا وسوسے کے امکان کی نفی ہوگی اور اب سی پیک پر کام پہلے دوگنی یا شاید تین گنی رفتار سے ہوگا اور شہباز سپیڈ وہی روایتی جنوں کی رفتار سے عمل پیرا ہوگی۔یادش بخیر سی پیک کے بڑے منصوبے پر کام کا آغاز شہباز شریف کے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں ہوا تھا اور ۴۱۰۲ کے نومبر میں ۶۔۵۴ ارب ڈالر کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا اور یہ وہ وقت جب پاکستان میں بے یقینی اور دہشتگردی نے پنجے گاڑے ہوئے تھے اور کوئی پاکستان کی مدد کو آمادہ نہیں تھا۔ اب چینی اعتماد اور شہباز شریف کی تیز رفتاری کے ملاپ سے ترقی کے ایک نئے دور کی امید کی جانی چائیے کہ اب حالات اس وقت سے بہت بہتر ہیں گو چینی انجنیئرز پر ہونے والے حالیہ حملوں کے حوالہ سے کچھ اہم فیصلے پاکستان نے کرلیے ہیں اور چینی حکام نے بھی اپنے موقف سے افغانستان کے ذمہ داران کو مطلع کردیا۔اس حوالے سے ایک نئے فوجی آپریشن کا اعلان بھی کیا جاسکتا ہے۔اس دورے میں بنیادی طور پر معیشت،زراعت اور تجارت کے فیصلوں پرتوجہ دی جائے گی،توانائی کے ساتھ ساتھ معدنیات اور آئی ٹی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے اور دوطرفہ تعلقات سے پاکستانی کی معیشت کی مشکلات دور کرنے پر بات ہوگی۔چین کی ترقی بڑی حد تک صنعتی پیداوار میں اضافے کے ساتھ جڑی ہے تو پاکستان کی صنعت میں چینی ماہرین اور سرمایہ کاری کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے وفود کی سطح پر ملاقاتیں ثمر آور ہونے کی صورت میں پاکستانی معیشت کی شکل بدل جائے گی۔سپیشل اکنامک زونز کے قیام سے روزگار کے نئے مواقع پاکستانی نوجوانوں کے لئے پیدا ہونگے اور آس ویاس کی کیفیت ختم ہوجائے گی۔ انفراسٹرایکچراور سڑکوں کے منصوبوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے اکثر کمیشن اور بدعنوانی کے الزامات لگاتے ہیں۔ بلوچستان سے میرے ایک نوجوان سیاست دان دوست سردار علم خان کا کہنا ہے کہ تم پنجاب کے لوگوں کے پاس سڑکیں اور موٹرویز ہیں اس لیے ان کی قدر نہیں ہے ہم سے پوچھو جنہیں پکی سڑک تک پہنچنے کے لئے کئی بار دو دن لگ جاتے ہیں۔سی پیک کے دوسرے فیز سے بلوچستان کی محرومیوں کو ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔شہباز شریف ملکی تاریخ کے ایک مشکل مقام پر اس دورے کے لئے جارہے ہیں تو میں صرف اتنا کہوں گا کہ جا تینوں رب دیاں رکھاں