اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو بری قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کیخلاف اپیلیں منظور کرلی ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگیزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر اور ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کی جانب سے اپنے دلائل مکمل کیے گئے۔ سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں کہا کہ سائفر کیس میں استغاثہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ سیکریٹ رولز کے مطابق سائفر کے جوابدہ اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ہیں، ان سے سائفر سے متعلق پوچھا جانا چاہیے۔ بانی پی ٹی آئی پر سائفر سے متعلق لاپرواہی برتنے کا الزام لگتا ہی نہیں ہے۔ چار گواہان کے مطابق سائفر کی حفاظت اعظم خان کی تھی۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ سائفر سے متعلق دو سال تحقیقات ہوئیں، اس کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی، ایف آئی آر درج ہونے کے بعد باقی آٹھ کاپیاں واپس وزارت خارجہ کو موصول ہوئیں۔ جو آٹھ کاپیاں ایف آئی آر درج ہونے کے بعد واپس آئیں ان سے متعلق کارروائی کیوں نہ ہوئی؟ سلمان صفدر نے موقف اختیار کیا کہ پراسیکیوٹر حامد علی شاہ ڈیڑھ ماہ دلائل دیتے رہے، کہتے رہے عدالتی سوالات کے جوابات بعد میں دوں گا، آج دلائل دینے کیلئے وہ موجود ہی نہیں۔ استغاثہ کو آخر میں یاد آیا کہ نئے دستاویزات پیش کرنے ہیں۔ سائفر پیش کیے بغیر آپ نے دس دس سال سائیں دلوائیں، جب ثابت کرنے کا وقت آیا تو میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر اگر گم ہوگیا تو آئی بی کو بتانا ہوتا ہے جو کہ نہیں بتایا گیا۔ غیر زمہ داری کی بات ہورہی ہے تو یہ کیس وزارت خارجہ نے کیوں نہیں بنایا؟ وزارتِ خارجہ دو ماہ بعد صرف گواہی کیلئے اس کیس میں آئی۔ جس بندے کو گواہ بنایا اس نے خود کہا کہ سائفر گم ہوگیا تھا۔ سلمان صفدر نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی بریت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ان تینوں چارجز میں بریت ہی بنتی ہے۔ سلمان صفدر نے موقف اپنایا کہ عدالت نے پوچھا تھا کہ کس ملک سے تعلقات خراب ہوئے تھے؟ ہم نے کہا پہلے تعلقات خراب نہیں تھے، اب ضرور ہوں گے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے تعلقات تو پہلے سے خراب تھے۔ سلمان صفدر نے کہا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمہ سے عدالتی وقت کا ضیاء کیا گیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ پراسیکوشن نے کہا کہ اگر ٹرائل میں غلطی ہوئی تو سزا معطل کرکے ریمانڈ بیک ہوگا، اس کیس کو ہم دو دفعہ ریمانڈ بیک کر چکے، کیا اب تیسری بار ریمانڈ بیک کریں؟ کیا ہم میرٹ پر جاسکتے ہیں، صرف اتنا سوال ہے؟ سلمان صفدر نے معاملہ واپس ٹرائل کورٹ کے بھیجنے کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اپنایا پہلی بات یہ ہے کہ اس سٹیج پر ریمانڈ بیک کی استدعا بنتی ہی نہیں۔ پراسیکوشن نے سپریم کورٹ کے پرانے فیصلے پر انحصار کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جس فیصلے پر انحصار کیا گیا وہ سول میٹر کا معاملہ ہے۔ عدالت نے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم آپ کی بات کو مان بھی لیں پھر بھی پراسیکوشن نے شواہد دینے ہیں۔ آپ قانون کی منشا پڑھ کر بات کریں۔ آپ نے کہا کہ ہمارے باہر کے ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے تھے۔ کیا تعلقات خراب ہونے پر کسی کو دس سال کی سزا دی جا سکتی ہے۔ یا جیل میں رکھ سکتےہیں؟ قانون ایسا کچھ نہیں کہتا نہ ہی قانون کی منشا یہ ہے۔ آپ نے کسی کو سزائے موت کی سزا دینی تھی۔ چلیں آپ نے دس سال کی سزا سنائی مگر کسی کو آپ نے دس سال کیلئے رکھ کر بھول جانا ہے؟ پراسیکوشن کا کیس ہے، تو سارا کچھ پراسیکوشن نے ہی مہیا کرنا ہے۔ پراسیکیوٹر ذولفقار نقوی نے اعظم خان کا بیان عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اعظم خان کو چھوڑیں، کیس آپکا تھا تو آپ نے ثابت کرنا ہے۔ جان بوجھ کر سائفر کاپی بانی پی ٹی آئی نے اپنے پاس رکھی اس سے متعلق بتائیں۔ پراسیکوشن کے پاس اعظم خان کے بیان کے علاؤہ کچھ نہیں ہے؟ پراسیکوشن کا کیس تب آسان ہوتا اگر سائفر کی کاپی عدالت کے سامنے پیش کرتے۔ پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ وہ کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس تھے، اسی وجہ سے ہم نے پیش نہیں کیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عدالت کے سامنے کوئی کلاسیفائیڈ دستاویز نہیں ہوتے۔ سائفر میں کیا افسانہ تھا؟ سائفر کو عدالت کے سامنے رکھتے تو پتہ چلتا کہ افسانہ ہے کیا۔ ایک شخص کہہ رہا ہے کہ میرے سے کاپی گم ہوگئی تو بچتا کیا ہے؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کلاسیفائید دستاویزات گم کرنے سے متعلق کیا قوانین ہیں؟ ریاست کی سیکورٹی کیسے خطرے میں پڑ گئی؟ ایک شخص کیوں ایک کاغذ کے گم ہونے پر جیل میں بند ہے؟ اگر ایک کاغذ گم بھی ہوگیا تو دوسرے شخص کو کیوں جیل میں ڈالا گیا؟ کیا شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس گم کرنے میں معاونت کی تھی؟ شاہ محمود قریشی کیخلاف سیکشن فائیو سی کا دفعہ کیسے بنتا ہے؟ پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کیس یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر اپنے پاس رکھ کر پبلک کیا۔ انہوں نے ٹرائل میں کہیں نہیں کہا کہ سائفر گم ہوگیا یا ہم نے انکوائری بٹھائی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے یہ جو آپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ سائفر گما نہیں تو پھر فائیو ڈی تو ختم ہوگیا ناں۔ پراسیکیوٹر نے کہا انہوں نے سائفر کو پبلک کیا، آفیشل انفارمیشن پبلک کرکے سیکورٹی بریج کردی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے وہی تو کہہ رہے ہیں کہ سائفر میں کیا تھا؟ انہوں نے تو جلسہ میں تقریر کی کہ باہر پلان ہوا میری حکومت گرائی گئی۔ ڈاکیومنٹس کو بطورِ شواہد آپ نے ٹرائل کورٹ کے سامنے رکھنا ہے یا سزا دینی ہے؟ شواہد عدالت کے سامنے نہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی جرم سرزد ہی نہیں ہوا۔ یہاں کلاسیفائیڈ دستاویز سے متعلق کتابچہ میں کچھ اور لکھا ہے اور آپ کچھ اور بتارہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس کو پاس رکھنا پورا جرم نہیں۔ اگر آپ جلدی نہ کراتے تو شاید کچھ اور ہوتا، جلدی میں یہی حال ہوگا۔ ایسی کیا بے چینی تھی کہ رات کے نو بجے بھی ٹرائل ہو رہا تھا؟ یہ ہائبرڈ قسم کا کیس ہے اور اس میں نئی عدالتی نظیر تیار ہوگئی۔ جس چیز کا آپ کہہ رہے اس کا ہائیکورٹ پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ہائیکورٹ میرٹ پر جاسکتی ہے، نہ جانے کا ہائی کورٹ کے لیے کوئی رول یا قانون نہیں۔ آپ اگر غلط کچھ نہ کرتے تو ریمانڈ بیک نہ ہوتا۔ اس فیصلے کو ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے تو بھی معاملہ ختم ہوتا۔ وکلا اور استغاثہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو بری قرار دے دیا۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کیخلاف اپیلیں منظور کرلیں۔ واضح رہے کہ سائفر کیس میں رواں برس 30 جنوری کو بانی پی ٹی ائی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ 2022 کو اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل وفاقی دالحکومت اسلام آباد میں ایک جلسہ عام میں یہ دعوی کیا تھا کہ سائفر غیر ملکی حکومت کی طرف سے لکھا گیا ،اور ان کی حکومت گرانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔