وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان شہباز شریف چار جون سے چین کے دورے پر روانہ ہوگئے ہیں ۔اس اہم ترین دورے کی اہمیت،اثرات،مضمرات اور امکانات پر بات کرنے سے پہلے ہمیں پاکستان اور چین کی دوستی اور تعلقات کو سمجھنا ہوگا۔کہا جاتا ہے بین الاقوامی تعلقات، ریاستوں کے مابین باہمی مفادات پر مبنی ہوا کرتے ہیں اور گلی محلے کی دوستی اور ہمسائیگی کی طرح یہ بے لوث نہیں ہوتی۔ریاستیں جہاں اپنا فائدہ دیکھتی ہیں،دوستی قائم کرلیتی ہیں جب تک مفاد قائم ہے دوستی برقرار رہتی ہے مفاد ختم دوستی ختم۔ پاکستان اور چین کا معاملہ اس سے سوا ہے اور بڑی حد تک اس اصول سے پرے ہے۔بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ دوستی ریاست یا دفتر خارجہ کی مرہون منت نہیں بلکہ صحیح معنوں میں عوام کے اندر جڑیں رکھتی ہے۔ چین کا ذکر آتے ہی ہر پاکستانی کے چہرے پر طمانیت اور فخر چھا جاتا ہے اور دل میں محبت کے جذبات ابھر آتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نا تو ہر پاکستانی نے چین دیکھا ہوا ہے اور نا ہی دوردراز کے باسیوں کا براہ راست چین یا کسی چینی فرد سے واسطہ پڑا ہے۔چین اور اہل چین سے محبت پاکستانیوں کی گھٹی میں ہے۔ازراہ تفنن آپ سمجھیے ہمیں چین سے خدا واسطے کا پیار ہے۔اکثر ہم پڑھتے ہیں کہ پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے اونچی،سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے،یہ محض الفاظ نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی احساس ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہر خیال اور احساس کسی نا کسی حقیقت یا بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔پاکستان کی طرف سے چین کی ریاست کو اقوام مسلم میں سب سے پہلے تسلیم کرنے سے لے کر پاکستان کے ہر اہم اور کمزور لمحے میں جہاں چین مضبوطی سے پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا وہاں پاکستان بھی علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں چین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر دکھ سکھ کا ساتھی رہا۔اس خطے میں پاکستان واحد ہمسایہ ملک ہے جس کے ساتھ چین کا سرحدی امور پر کبھی کوئی تنازع نہیں ہوا۔سر د جنگ میں چین کے امریکہ کے ساتھ روابط کے حوالے سے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا اور عالمی سیاست کی شکل بدل کر رکھ دی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف نے فروری 1997 میں چین کے اس وقت کے صدر جیانگ زیمن اوروزیراعظم لی پنگ سے اہم ملاقاتیں کیں اور پاکستان اور چین کی صدیوں پرانی شاہراہ ریشم کی تجارت کو بنیاد بناتے ہوئے باہمی معاشی ترقی کے نئے دور کی بنیاد رکھی۔2015 میں ایک مرتبہ پھر میاں نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد پاکستانی خارجہ پالیسی میں چین اور مشرق کو خاص اہمیت حاصل ہوئی، یہی وجہ ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کے قیام کے بعد بھی میاں نواز شریف نے چین کا ایک نجی دورہ کیا۔تزویراتی دفاعی تعاون، علاقائی اور عالمی امور پر اتفاق رائے کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کاسی پیک کے ذریعے آغاز اور جے ایف 17 تھنڈر ماضی قریب کے پاکستانی تاریخ کے اہم ترین واقعات ہیں۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک جن کو معاشی چیلنجز کا بھی سامنا ہو تو پنجابی محاورے کے مطابق صورتحال:. آئے او تے کی لے کے آئے او تے چلے او تے کی دے کے چلے او : جیسی ہوا کرتی ہے خاص طور پر اہم اور بڑے ممالک جن پر پاکستان کسی نا کسی طور انحصار کرتا ہو۔ بدقسمتی سے ماضی قریب کے معاشی معاملات سے تو لگتا تھا کہ ڈیفالٹ پاکستان کے کان کو چھو کر گزرا ہے۔دوسری جانب دوست ممالک کے صبر کا پیمانہ بھی سمجھیں چھلک چکا اور اب ہماری معاشی بد اعتدالیوں کو اپنے پرائے صرف نظر کرنے کو اب ہرگز تیار نہیں۔ پاکستانی معیشت غالب کے اس مصرعہ کے مصداق تھی
قرض کی پیتے تھے مے،لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
تو صاحبان ہماری فاقہ مستی رنگ لا چکی ہے اور نوبت یہ آگئی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اب پیشگی کہہ دیتے ہیں کہ میں قرض مانگنے نہیں آیا لیکن عمال اور عوام کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی الٹا اسے پنچ لائن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے،چین کی ریاست ہمار ے بعد قائم ہوئی اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہم سے کہیں آگے نکل گئی۔ اللہ ان کو اور ترقی دے لیکن اب ہمارے پاس مرحوم طارق عزیز کے بقول غلطی گنجائش نشتہ۔پاکستان کی ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے چین کی ترقی کے ماڈل کو سمجھنا ہوگا۔ یہ درست ہے کہ ترقی کو جدیدیت سے جوڑا جانا چاہیے لیکن کسی مغالطہ کے سبب ہمارے ہاں ترقی کو مغربیت سے جوڑا جاتا ہے۔چین کی ترقی کا ماڈل یہ بتاتا ہے کہ مغربیت ترقی کا واحد راستہ نہیں ہے بلکہ ترقی کے چند راستوں میں سے ایک راستہ ہے۔اب چین کا راستہ بھلے سوشلسٹ راستہ ہے لیکن انہوں نے روسی سوشلزم سے الگ رہتے ہوئے اپنے حالات اور واقعا ت کے تحت اجتماعی ترقی کے ایک نئے تصور کو جنم دیا اور نتیجتا وہ دنیا میں ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کے ساتھ تیز ترین ترقی کرنے والا ملک ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا صرف جدیدیت ہی ترقی کی واحد صورت یا راستہ ہے؟
تو اس کا جواب ناں میں ہے اس منزل کے حصول کے کچھ اور بھی لازمے ہیں مثلا جمہوریت یا عوامی شمولیت ۔۔۔تو چین کے طریقہ ترقی میں عوامی شمولیت تو یقینی طور پر ہے مگر وہ روایتی مغربی جمہوریت نہیں جس کا مطلب یہ ہے ترقی یافتہ معاشرے کے قیام کی شرط عوامی شمولیت ہے مغربی جمہوریت نہیں۔چینی صدر زی کے بقول جمہوریت کوئی دکھانے یا زیور کی طرح پہننے کی چیز نہیں بلکہ مسائل کے حل میں سب کی شمولیت ہے۔
غربت کا خاتمہ،مشترکہ خوابوں کے حصول وغیرہ جیسے طرز عمل کے ساتھ ساتھ
مساوی مواقع کی فراہمی یا میرٹ کا نفاذ قانون کے یکساں اطلاق کے ساتھ عمرانی معاہدے کی وہ بنیادی شرائط ہیں جو کسی ریاست اور معاشرے کی کامیابی کی کلید یا ترقی کا پیمانہ قرار پاتی ہیں۔اس میں قانون کی حکمرانی کے تحت بدعنوانی سے نمٹنے کی حکمت عملی پر عمل درآمد سونے پر سہاگہ ٹھہرا۔
اوپر بیان کیے گئے تمام تصورات جدیدیت کا مظہر ہیں لیکن یہ تمام معاملات مغرب میں اپنائے گئے طریق سے یکسر مختلف انداز میں کارفرما ہیں تاہم نتائج کے اعتبار سے چین کی کارکردگی کسی طور مغرب اور امریکا جیسی بڑی ریاستوں سے کم نہیں۔ان معاملات کے بیان سے ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کی ترقی کے لئے جدیدیت کے ساتھ ساتھ ریاستی ذمہ داریوں اور حقوق کے اوپر بیان کردہ لوازمات کو پورا کرنے کے لئے کسی روائتی انداز کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے زمینی حقائق اور واقعات کی روشنی میں تھوڑی بہت قطع برید اور تبدیلیوں کے ساتھ نئے انداز سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے(جاری)
—