گزشتہ روز یعنی 23 مارچ 2024 کی صبح ہمارے بیٹے اویس ؔنے ہمیں خوشخبری سنائی کہ اسے کسی ضروری کام سے راولپنڈی شہر کے ایک مصروف ترین علاقے میں جانا ہے اور ہمیں بھی اس کے ساتھ چلنا ہے ۔ ہم نے اپنے بیٹے کی خوشی کومقدم رکھا اور ہامی بھر لی کہ شاید کئی دنوں سے خراب طبیعت میں بہتری آجائے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں انتہائی فرمانبردار اولاد عطا فرمائی ہے ورنہ نفسا نفسی کے اس دور میں بچے بوڑھے والدین کو اپنے ساتھ کہیں لے جانے سے کترا تے ہیں یا مختلف بہانوں سے ٹال دیتے ہیں لیکن ہمارے بچے اپنی مرحومہ والدہ رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت کا پرتو اور ان کی دی ہوئی تربیت کا عملی نمونہ ہیں ۔ دوسری طرف ہماری پیاری بہو بھی ہماری اولاد جیسے اوصاف سے بہرہ ور ہیں۔ ولیمے سے اگلے دن ہماری اہلیہ رحمتہ اللہ سے آخری ملاقات کے دوران انہوں نے کہاتھا: ’’آنٹی! میری امی نہیں ہیں۔ اب آپ ہی میری امی ہیں اور میں آپ کو آپ کی بیٹی بن کر دکھاؤں گی۔‘‘ بقول ہماری بہو: ’’یہ سن کر آنٹی نے مجھے فوراً گلے لگا لیاتھا اور رونا شروع ہو گئی تھیں۔ انکل! آنٹی تھیں ہی بہت اچھی، ورنہ کون کسی کے لئے روتا ہے۔‘‘ اب یہ خالق کائنات کی مرضی تھی کہ یہ نوبت نہ آسکی اور اللہ جل شانہ نے میری اہلیہ کو اپنے پاس بلا لیا۔تاہم بہو نے اپنا کہا پورا کردکھایا۔ آنٹی نہ سہی، انکل یعنی ہم تو موجود ہیں نا! بیٹے اور بہوکو اکٹھے کہیں جانا ہو تو بہو بوڑھے انکل کو یعنی ہمیں ساتھ لے جانے کے لئے ضدکرتی ہیں اور پھر اصرار کرکے ہمیں اپنے بیٹے کے برابر فرنٹ سیٹ پر بٹھاتی ہیں اور خود پچھلی سیٹ پر بیٹھ جاتی ہیں، حتیٰ کہ گزشتہ سال بیرون شہر یعنی لاہور کے سفر میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ بیٹا گھر پر موجود نہ ہو اور کہیں جانا ہو تو انکل کو ساتھ ضرور لے جاتی ہیں۔ اسی طرح عمرہ کی ادائیگی کے لئے بھی بہو کااصرار تھا کہ انکل بھی ہمارے ساتھ جائیں گے، اور پھر ہمارا بیٹا، بہو، بڑی بیٹی آمنہ عروج اور مابدولت اکٹھے ہی عمرہ کے لئے عازم سعودی عرب ہوئے تھے اور کعبتہ اللہ کے علاوہ ہم نے اکٹھے ہی دربار نبی ﷺ میں حاضری دی تھی۔ الحمدللہ۔ رب کائنات سب کو ایسی اولاد اور بہوؤ ں سے نوازے۔ آمین۔
اویس ؔبیٹے نے اسلام آباد ایکسپریس وے سے جانے کی بجائے کچہری چوک سے رالپنڈی شہر میں داخلے کا راستہ اختیار کیا۔ پورا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ پرانی کچہری سے مریڑ حسن چوک کی طرف جاتے ہوئے ہم نے بیٹے کو بتایا کہ کبھی یہ روڈ سنگل ہوا کرتی تھی اور لاہور، لائل پور (حال فیصل آباد)، سرگودھا، ملتان اور پنجاب کے دوسرے شہروں کا جانے کے لئے بسوں کا روٹ ہوا کرتی تھی ۔نومبر 1973 میں جب ہم چند دن کے لئے راولپنڈی وارد ہوئے تھے تو ہماری بس بھی اسی راستے سےشہر میں داخل ہوئی تھی۔ مری روڈ پر لیاقت باغ کے قریب پہنچ کرجب ہم نے بیٹے کو بتایا کہ اس باغ کے پچھواڑے میں بیرون شہر جانے والی بسوں کا ٹرمینل ہوا کرتا تھا اور کچہری چوک ان کا پہلا پڑاؤ ہوتا تھا جہاں سے یہ انتظار میں کھڑی سواریاں اٹھا تی تھیں تو بیٹے کی دلچسپی فزوں تر ہوگئی۔ جب ہم نے لیاقت باغ کی دیوار کے ساتھ اندر جانے والی تنگ سی سڑک کی طرف اشارہ کرکے بیٹے کو بتایا کہ یہ بیرون شہر جانے والی بسوں کا انٹری پوائنٹ ہوا کرتا تھا تو وہ بہت حیران ہوا کہ اس چھوٹی سی سڑ ک پر سے کبھی بسیں بھی گزرتی رہی ہیں لیکن ہمارے یہ بتانے پر کہ ٹرمینل سے باہر آنے کے لئے بسیں دوسری طرف لیاقت روڈ والا راستہ اختیار کرتی تھیں تو اس کی حیرانگی میں کچھ کمی ہوئی۔
اویس ؔ بیٹے نے لیاقت باغ اور کالج روڈ کے سنگم پر گاڑی پارک کی تو طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ہم نے گاڑی میں ہی بیٹھے رہنے کو غنیمت جانا اور بیٹے سے کہا کہ وہ اپنا کام نمٹا آئے،ہم گاڑی میں اس کا انتظار کیے لیتے ہیں۔بیٹے کے گاڑی سے نکلنے کی دیر تھی کہ ہم ماضی میں کھو گئے۔ نومبر1973 کے چند روزہ قیام کے دوران ہمارے ایک کزن نے جو تلاش معاش کے سلسلے میں اسلام آباد آیا ہوا تھا اور اسے ہمارا چلے آنا ہر چند نہ بھایا تھا اور جس کا اس نے اظہار بھی کردیا تھا، ہمیں مریڑ حسن چوک سے آگے ایمپلائمنٹ ایکسچینج لے جا کر وہاں اسامیوں کا اعلان سنا تھا اور ساتھ ہی ہماری بھی رجسٹریشن کرادی تھی۔ ایمپلائمنٹ ایکسچینج سے پیدل واپسی میں ہم راجہ بازار کی ایک بغلی گلی میں آئے تھے جہاں سبزی منڈی لگی ہوئی تھی اورایک لڑکا لہک لہک کرآواز لگا رہا تھا: ’’ٹھپر(ٹھ کے نیچے زیر ) لے لو، ٹھپر، چار آنے سیر، ٹھپراں دے ڈھیر۔‘‘ ہمارے استفسار پر کہ یہ ٹھپر کیا ہوتے ہیں، اس نے اپنے سبزی کے سٹال کی طرف اشارہ کرکے الٹا پوٹھوہاری زبان میں ہمیں پوچھ لیا تھا: ’’آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ؟نظر نہیں آرہے ہیں۔‘‘ پھر ایک صاحب نے نشاندہی کی تھی کہ اس علاقے میں شلجم کو ٹھپر کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں ہم نے سڑکوں کے کنارے جگہ جگہ شکرکولا کی ریڑھیاں دیکھی تھیں اور ایک جگہ رک کر شکر کولا سے لطف اندوز بھی ہوئے تھے۔
سبزی منڈی سے نکل کر کچھ دیر ادھر ادھر گھومنے کے بعد باڑہ مارکیٹ سے ہوتے ہوئے ہم لیاقت روڈ پر نکل آئے اور ایک صاحب سے اسلام آباد جانے کے لئے رہنمائی چاہی۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد جانے کے دو ذرائع ہیں۔ فورڈ ویگن اور لال بس۔ ابھی اتنا ہی بتا پائے تھے کہ لال رنگ کی ایک ڈبل ڈیکر رینگتے ہوئے نمودار ہوئی جس پر ’’اسلام آباد اومنی بس سروس‘‘ لکھا ہوا تھا۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، چھلانگ لگائی اور جھٹ بس کے اندر۔ بس میں داخل ہونے کے بعد کیا ہوا تھا؟ یہ سوچتے وقت ہم ذرا مسکرائے اور ماضی میں مزید پیچھے چلے گئے۔
ہماری عمر تقریباً چار سال تھی ہمارا ہم عم یہی کزن جس کا ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کیا ہے، ہماری ہمشیرہ کی شادی میں شرکت کے لئے لائل پور کے ایک نواحی گاؤں سے اپنی فیملی کے ساتھ شہر آیا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعدسب گھر والے اور مہمان پریشان ہوگئے تھے کیونکہ موصوف دیر سے کہیں نظر نہیں آ رہے تھے اور ادھر ادھر تلاش کرنے کے باوجود ہمارے اس کزن کی حیثیت ’’مسنگ پرسن‘‘ کی سی ہو گئی تھی۔تلاش کرنے والوں میں ہمارے والد صاحب رحمتہ اللہ علیہ بھی شامل تھے۔ وہ پریشانی کے عالم میں بار بار مختلف گلیوں کے چکر لگا رہے تھے اور اب وہ سڑک کے پارجا کر ماڈل ٹاؤن کی گلیوں میں اسے تلاش کرنے کا سوچ رہے تھے۔ اچانک ان کی نظر فٹ پاتھ کے دوسری جانب پڑی تو موصوف ایک نوجوان کی انگلی پکڑ ےسڑک پار کرتے دکھائی دئیے۔والد صاحب اس کی طرف لپکے، ان کے استفسار پر نوجوان ہنس پڑا اور بتانے لگا : ’’کاکا دوسری پھپھی دے گھروں آیا اے (لڑکا دوسری پھوپھی کے گھر سے آرہا ہے)‘‘۔ والد صاحب کو غصہ آگیا کہ دوسری پھوپھی کا گھر تو بہت دور تھا اور اس کے لئے اکیلے وہاں جانا ناممکن تھا۔ پھر یہ کہ دوسری پھوپھی تواپنی فیملی کے ساتھ خود ہمارے ہاں آئی ہوئی تھیں۔والد صاحب کا غصہ بجا تھا کیونکہ ان دنوں بچوں کے اغوا کی وارداتیں بہت ہو رہی تھیں اور وہ بعد میں خرکار کیمپوں سے برآمد ہو رہے تھے۔بہرحال نوجوان نے ہنستے ہوئے والد صاحب سے پوری داستان سنائی۔
قصہ کچھ یوں تھا کہ ہم لائل پور میں نشاط سینما کے سامنے محلہ دھوبی گھاٹ میں ڈبل روڈ کے کنارے واقع مکان کی دوسری منزل پر رہتے تھے اور نشاط سینما 1، 2 اور 6 نمبر روٹوں کی ڈبل ڈیکر اومنی بسوں کا سٹاپ تھا۔سینما کے بورڈز پر رنگین اور خوبصورت تصاویر دیکھ کر’’کاکے‘‘ کا دل مچلا تھااور وہ ادھر چل پڑا تھا ۔ اسی دوران وہاں ایک ڈبل ڈیکر آکر رکی اور کاکا اس کے اگلے دروازے سے جس پر ’’برائے مستورات‘‘ لکھا تھا، داخل ہوکر کچھ دیر خواتین میں بیٹھا رہا تھا اور پھربس کی اوپر والی منزل پر جا کر سامنے والی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا تھا۔جب باوردی کنڈکٹرنے ٹکٹ دینے کے لئے پیسے طلب کیے تو ’’کاکے‘‘ نے بتایا کہ وہ اپنی شہر والی پھوپھو کے گھر آپا کی شادی پر آیا ہواہے اور یہ (بس) اس کی پھوپھو کا گھر ہے اور وہ اوپر والی منزل پر رہتی ہیں۔ کنڈکٹر نے اسے ایک سیٹ پر بٹھا کر ساتھ بیٹھی سواریوں سے اس کا خیال رکھنے کو کہا اور واپسی میں اپنے ساتھ لاکرسٹاپ پر دوسرے روٹ کی بس کے انتظار میں کھڑے ایک نوجوان کے حوالے کرکے اس کا گھر تلاش کرکے وہاں پہنچانے کو کہا۔ یہ قصہ سنا سنا کر ہمارے کزن کا کئی سالوں تک مذاق اڑایا جاتا رہا۔ دیکھا دیکھی ایک مرتبہ ہم بھی یہ مذاق کربیٹھے تووالد صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے سخت سرزنش کرتے ہوئے ہمیں نصیحت کی کہ دوسروں کا مذاق نہیں اڑایا کرتے (جی ہاں! ہمارے والد رحمتہ اللہ علیہ ایسے ہی تھے)۔
اب یہی کزن اسلام آباد اومنی بس سروس کی ڈبل ڈیکر (پھوپھو کا گھر نہیں) میں ہمارے ساتھ سوار ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد کنڈکٹر آیا اور منزل مقصود پوچھی تو کزن نے اسے زیرو پوائنٹ بتایا۔ کنڈکٹر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’سامنے لگا ہوا اتنا بڑا بورڈ نظر نہیں آیا؟ یہ بس اسلام آباد نہیں جارہی بلکہ (اب راولپنڈی کی اس جگہ کا نام ذہن میں آرہا) جارہی ہے۔‘‘ ہم نے نشان دہی کی کہ بس پر تو ’’اسلام آباد اومنی بس سروس‘‘ لکھا ہوا ہے۔ کہنے لگا: ’’لگدا اے کسے گراں توں آئے او۔ پنج پیسے دیو، ٹکٹ لوو تو اگلے سٹاپ تے اتر کے اسلام آباد دی بس وچ بیٹھ جانا (معلوم ہوتا ہے کہ کسی گاؤں سے آئے ہو۔ پانچ پیسے دو، ٹکٹ لو اور اگلے سٹاپ پر اتر کر اسلام آباد جانے والی بس میں بیٹھ جانا)۔‘‘ ہم نے ٹکٹ خرید لیا اور لیاقت باغ اتر گئے۔ وہاں ایک صاحب نے بتایا کہ راولپنڈی کی اپنی کوئی اومنی بس سروس نہیں اس لئے ہم ہر بس پر اسلام آباد اومنی بس سروس لکھا ہی پائیں گے۔ انہوں نے ہمیں مری روڈ کے دوسری طرف جا کر وہاں سے اسلام آباد جانے والی کسی بھی ویگن یا 1 اور 9 نمبر روٹ کی کسی بھی اومنی بس میں بیٹھ کر زیرو پوائنٹ چلے جانے کو کہا۔
گاڑی میں بند شیشوں کے پیچھے بیٹھے ماضی کو کریدتے ہوئے راولپنڈی سے منسوب ہمارے چند زخم بھی تازہ ہو رہے تھے اور دم گھٹ رہا تھا، اس لیے ہم گاڑی سے باہر نکل کر کھڑے ہوگئے تو بڑی خوشگوار حیرت ہوئی۔ بہت سے موٹر سائیکل سواروں نے جنھوں نے شاید یوم پاکستان کے حوالے سے سبز رنگ کے ہیلمٹ پہن رکھے تھے، ہماری طرف آنا شروع کردیا تھا اور ان میں سے ہر ایک اشاروں سے ہمارا حال پوچھ رہا تھا اور جواب میں ہم ہاتھ ہلا کر ان کا شکریہ ادا کررہے تھے۔ کچھ نے تو ہمیں لفٹ دینے کیلئے اپنی پچھلی سیٹ کی طرف اشارہ بھی کیا لیکن ہم نے گاڑی کی چابیوں کا گچھا جھلا کر ان کا شکریہ ادا کیا۔تاہم کچھ لوگ لفٹ کی پیشکش قبول کرتے بھی دکھائی دئیے۔ یوم پاکستان پر سبز ہیلمٹ پہنے ہمارے یہ محب وطن موٹر سائیکل سوار ایک قطار میں سڑک کے انتہائی بائیں کنارے پر چل رہے تھے۔ کاش! یہ منظر ہمیں سال کے باقی دنوں میں بھی دکھائی دے ۔ اگر سب موٹرسائیکل سوار اپنی لین میں رہیں تو سڑکوں پر حادثات کی شرح میں اور قیمتی جانوں کے ضیاع میں قابل ذکرحد تک کمی آجائے۔
تھوڑی دیر بعد ہمارا بیٹا اپنا کام نمٹا کر آگیا اور ہم واپس چل پڑے۔ لیاقت باغ کے سامنے سے گزرتے ہوئے یاد آیا کہ یہاں ایک میونسپل لائبریری بھی ہوا کرتی تھی، شاید اب بھی موجودہو۔17 جولائی 1974 کو ہم مستقلاً اسلام آباد قیام گزیں ہوگئے تھے ۔ 15 نومبر 1974 کو ریڈیو پاکستان کے شعبہ خبر سے وابستہ ہونے کے بعد ہماری ابتدائی ترقیوں میں اس لائبریری کا بڑا کردار رہا تھا۔ ہم اکثر یہاں آکر نہ صرف اخبار بلکہ کتابیں بھی پڑھا کرتے تھے۔ سوشل میڈیا آنے کے بعد اب تو کتابیں اور شاید لائبریریاں بھی تقریباً نا پید ہوچکی ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جہاں ہماری اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے وہیں ہم وسیع المطالعہ بھی نہیں رہے۔تاہم ہمارے دفاتر میں ایک چیزجو پہلے’’ ترقی پذیر‘‘ تھی ، اب بے پایاں’’ ترقی‘‘ کی منازل طے کر رہی ہے، اور وہ چیز ہے اپنی مطلب براری کے لئے قواعدو ضوابط کو تروڑنا مروڑنا، آگے نکلنے کے لئے محنت کی بجائے اپنے ہی ساتھیوں کی کردار کشی (لفظ کشی کو پیش کے ساتھ پڑھا جائے) اور سینئرز کی خوشامد کرنا۔
سواں پل کے قریب پہنچ کر ہم نے اویسؔ بیٹے کو بتایا کہ سیدھی اور وسیع دکھائی دینے والی یہ روڈ بھی کبھی سنگل اور ٹیڑھی میڑھی ہوا کرتی تھی اور دریائے سواں کے اس وقت کے تنگ سے پل پر چڑھنے کے لئے گاڑیوں کو فوجی فاؤنڈیشن اور اٹک آئل ریفائنری کے سامنے سے گھوم کر ایک بہت لمبا چکر کاٹنا پڑتا تھا ۔ پل کے آغاز پر ایک خانقاہ نما حجرہ ہوا کرتاتھا۔ یہاں سے گزرتے ہوئے ہرگاڑی کا ڈرائیور اور کنڈکٹر حسب استظاعت کچھ نہ کچھ خانقاہ والے بزرگ کی نذر کرکے ان کی ’’دعائیں‘‘ لیا کرتا تھا۔ بیٹے نے توجہ دلائی کہ نذرانے کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، سامنے سبزرنگ کے جھنڈوں کے نیچے بڑے سے بورڈ پر ’’سخی زندہ پیر ‘‘ لکھا نظر آرہا ہے اورلوگ نذرانہ بھی اکٹھا کر رہے ہیں۔ غور کیا تو یہ سلسلہ سڑک کے دوسری پار بھی دکھائی دیا یعنی مساوات کے زریں اصول پر سختی سے عمل کیا جا رہا تھا تاکہ کہیں دوسری سڑک استعمال کرنے والے اس ’’سعادت‘‘ اور بزرگ کی ’’دعا‘‘ سے محروم نہ رہ جائیں۔ ہمارا مطلب ہے کہ سڑک کے دوسری طرف بھی سبز رنگ کے جھنڈے لگے ہوئے تھے اور سخی پیر کے نام پر نذرانہ اکٹھا کیا جا رہا تھا۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ سخی جس کا کام ہی دوسروں کے لئے سخاوت کرنا ہے، کے نام پر پاکستان بھر میں جگہ جگہ یہ فعل کیوں جا ری ہے۔ سخی تو کسی کا بھی محتاج نہیں ہوا کرتا نیز کیا یہ نذرانہ سخی کو پہنچ رہا ہے کیونکہ اگر یہاں واقعی کوئی سخی موجود تھا بھی ، تو وہ تو جانے کتنی صدیوں پہلے اللہ کا پیارا ہو چکا ہو گا۔ ہمارے پیر تو ہمارے اپنے والدین تھے اور انہوں نے دوسروں سے کوئی چیز لینے یا اس پر قبضہ کرنے کی سختی سے ممانعت کررکھی تھی۔ حتیٰ کہ ہمیں اپنے سگے ماموں اور چچا سے عیدی تک وصول کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ والد صاحب خود بھی ہمارے ماموں اور چچا کو یہ کہہ کر کچھ دینے سے منع کردیتے تھے: ’’ بھائی صاحب!پیسے دے کر بچوں کا اخلاق بگاڑنے کی بجائے ان بچوں کو کوئی ایسی بات بتائیں جو ان کی آئندہ زندگی میں ان کے کام آئے اور وہ آپ کو دعائیں دیں۔ پیسوں کا کیا ہے یہ تو جہنم کے انگارے ہیں۔‘‘ اب تو جان نہ پہچان عید الفطر پر جگہ جگہ لوگ انتہائی ڈھٹائی سے عیدی طلب کرتے نظر آتے ہیں اور اگر انہیں عیدی نہ دی جائے تو وہ توہین کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔
ہم سوچ رہے تھے کہ آبادی میں اضافے اور حدود میں وسعت کے بعد راولپنڈی شہر کا کلچر کتنا تبدیل ہو چکاہے۔ اب شاذ ہی کوئی ’’گئی سو ( کیا آپ چلیں گے)‘‘، اچھو، گچھو، نماشاں اور ٹاپاں جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے ورنہ جب ہم نئے نئے شہر میں آئے تھے تو ہم پوٹھوہاری زبان سے بالکل نابلد تھے اور سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ ہم سے مخاطب شخص کیا کہہ رہا ہے۔
اتنے میں بحریہ ٹاؤن کا گیٹ آگیا اور ہم وہاں سے اندر داخل ہوکر گھر واپس پہنچ گئے۔