حکومتی یقین دہانیوں پر جماعت اسلامی کا دہرنا موخر معاہدے پر عمل نہ ہوا تو پھر دہرنا دیں گے حافظ نعیم کا دبنگ اعلان

جماعت اسلامی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں معاہدہ پر دستخط ہو گئے۔

جماعت اسلامی کی طرف سے لیاقت بلوچ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے دستخط کیے
حکومت کی جانب سے وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے دستخط کیے

دونوں فریقوں میں دستاویزات کا تبادلہ ہو گیا۔

کچھ دیر میں اسٹیج سے باقاعدہ معاہدے کے نکات کے ساتھ اعلان کیا جائے گا۔

حافظ نعیم الرحمان صاحب خطاب کریں گے۔

اظہر اقبال حسن ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان

معاہدہ طے
جماعت اسلامی اورحکومتی کمیٹی کے
دستخط ہوگئے
دھرناموخرکرنےکااعلان
معاہدےپرعملدرآمدنظرنہ آیاتو
طےشدہ مدت سےقبل ہی دھرنےکی تیاری شروع کردیں گے
اور
پارلیمنٹ ہاؤس پہنچیں گے
کوئی کنٹینرہماراراستہ نہیں روک سکتے

امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کاوزیرداخلہ کی موجودگی میں دبنگ اعلان

جماعت اسلامی پاکستان اور حکومت کے درمیان مہنگی بجلی ، اضافی ٹیکسز ، جاگیرداروں پر ٹیکسوں کے عدم  نفاذ اور آئی پی پیز کے متنازع معاہدوں کے خلاف جاری دھرنے کے حوالے سے معاملات طے پا گئے ۔ معاہدے پر فریقین نے دستخط کر دئیے ۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے واضح کیا ہے کہ معاہدے پر عملدرآمد نہ ہوا تو ہم دھرنوں احتجاج جلسوں اور ہڑتال کے لیے ہر وقت تیار رہیں گے ۔ جماعت اسلامی کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ عملدرآمد کے لیے کمیٹیاں بنیں گی جو ایک ماہ میں رپورٹ پیش کریں گی ۔ ٹاسک فورس معاہدے پر عملدرآمد کی نگرانی بھی کریگی ۔ حکومت اور تاجروں کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوں گے ۔ وفاقی وزراء محسن نقوی ، عطاء اللہ تارڑ نے دھرنا میں یقین دہانی کرا دی ہے کہ معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس کی مکمل پاسداری کی جائیگی ۔ جماعت اسلامی اور حکومتی ٹیموں کے درمیان دھرنا کے مقام پر مذاکرات کا پانچواں دور ہوا ۔ حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ شریک ہوئے ۔ اس موقع پر  امیر جماعت  حافظ نعیم الرحمان بھی موجود تھے ۔ لیاقت بلوچ ، امیر العظیم ، افراسیاب نے جماعت کی نمائندگی کی ۔ پانچواں طویل مذاکراتی دور ہوا اور معاہدے کو حتمی شکل دی گئی ۔ وزراء نے معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں اور جماعت کی ٹیم کے ارکان نے بھی اس پر دستخط کئے ۔ دھرنا میں اسٹیج سے معاہدہ طے پانے کا اعلان کیا گیا۔اس موقع  پر امیر جماعت حافظ نعیم الرحمان نے واضح کیا کہ لوگ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ معاہدے پر عملدرآمد کی ضمانت کیا ہے ہم نے کہا  قوم کے سامنے حکومتی نمائندے اعلان کر رہے ہیں توقع ہے کہ سو فیصد عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو دھرنوں مظاہروں احتجاجی جلسوں کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں گے ۔ ہڑتال جیسے احتجاج سے دستبردار نہیں ہوں گے اور یہ ہمارا جمہوری اور آئینی حق ہے کہ عوام کو درپیش مسائل حل کئے جائیں حکومت عملدرآمد کی پابند ہے عوامی احتجاج اور تعاون معاہدے پر ضمانت حاصل کرے گا۔ ریلیف نہ ملا تو دھرنے مظاہرے مارچ ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے ۔ معاہدے کے حوالے سے  لیاقت بلوچ نے شرکاء دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آخری مرحلے میں معاملات طے پا گئے ہیں جن امور پر اتفاق ہوا ہے ان میں آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی ، بجلی کی لاگت کے مطابق قیمت کے تعین اور ٹیکسوں کے بوجھ میں کمی کے علاوہ جاگیرداروں پر ٹیکس لگانا سرفہرست ہے ۔ جماعت اسلامی کے اس احتجاج کی حکومت کی طرف سے تعریف کی گئی ۔ حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور جماعت اسلامی کے قومی نوعیت کے ان مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا  ہے ۔ آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی کے لیے انکی مکمل جانچ پڑتال کی جائیگی اور ایک با اختیار ٹاسک فورس ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے گی ۔ کیپسٹی چارجزکا جائزہ لیا جائے گا اور بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی کی جائے گی ۔ ٹاسک فورس کو واپڈا چیئرمین آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور ایف بی سی سی آئی کے نمائندوں کی معاونت حاصل ہو گی ۔ آئی پی پیز کے حوالے سے عالمی اور مقامی فرموں کی مشاورت سے ماہر کا انتخاب کیا جائے گا ۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے مدد لی جائے گی ٹاسک فورس پاور سیکٹر کے انتظامی مالیاتی آپریشن اور اقدامات کے بارے میں سفارشات پیش کرے گی جو معاہدے مدت مکمل کر چکے ہیں وہ بند ہوں گے اور ان کے پاور پلانٹس جس طرح مناسب سمجھتے ہوئے استعمال میں لایا جائے گا  ۔ دیگر آئی پی پیز کے معاملات کو درست کیا جائے گا ۔ اور اس حوالے سے نجی شعبے سے ماہر کو لینے کا بھی جائزہ لیا جائے گا ۔ توانائی کے گردشی قرضے اسٹاف سے متعلق مسائل کا جائزہ لیا جائے گا ۔ محدود مدت میں سفارشات نہ صرف پیش کی جائیں گی بلکہ ٹاسک فورس عملدرآمد کی نگرانی بھی کرے گی اور ایک ماہ میں یہ رپورٹ پیش کی جائے گی ۔ نائب امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ دھرنے کی برکت سے پاکستان میں پہلی بار پچیس کروڑ عوام کی بات سنی گئی ہے ۔ حکومت نے جماعت اسلامی کے ساتھ اتفاق کیا ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں مل کر جاگیرداروں پر انکم ٹیکس نافذ کریں گی ۔ تاجر دوست اسکیم کے نفاذ سے پیدا ہونے والے غیر منصفانہ نظام کے حوالے سے خدشات کا خاتمہ کیا جائے گا اور تاجروں کے لیے آسان اور سہل نظام بنایا جائے گا یہ بھی طے ہوا ہے تنخواہ دارطبقے پر ہر ممکن طریقے سے ٹیکس کم کیا جائے گا ریونیو بڑھا کر مالیاتی کمی کو پورا کیا جائے گا اور جماعت اسلامی اور حکومت کی مشترکہ کمیٹی عملدرآمد کے لیے نگرانی کرے گی ۔ بجلی کے بل ہر صورت کم کئے جائیں گے اور ایسے اقدامات کئے جائیں گے کہ آئندہ ایک  ڈیڑھ ماہ میں فی یونٹ بجلی کی قیمت کم کر دی جائے گی ۔ تاجروں پر ٹیکسوں کے حوالے سے کمیٹی کا نوٹیفیکیشن کیا جائے گا اس میں برآمد کنندگان کے نمائندے بھی شامل ہوں گے ۔ مذاکراتی کمیٹیوں نے قومی جذبے کے ساتھ اتفاق کیا ہے کہ جو نکات طے پا گئے ہیں ان پر عملدرآمد کے لیے پاسداری کی جائے گی اور دونوں کمیٹیاں عملدرآمد کے جائزے کے لیے وقتا فوقتا ملتی رہیں گی ۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ جب معاہدے پر دستخط کی بات کی گئی تو وزراء نے کہا کہ ہم تو انگوٹھا لگانے کے لیے بھی تیار ہیں ۔ اس موقع پر انہوںنے وزیر توانائی اویس لغاری ، ا میر مقام ، طارق فضل چوہدری کا بھی شکریہ ادا کیا اور شرکاء دھرنا کی استقامت کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کارواں کے قدم عوام کو ریلیف دلانے کے لیے آگے بڑھتے رہیں گے ۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ حتمی مذاکرات کے لیے دن بھر جماعت اسلامی کے رہنماوں سے رابطے میں رہا ایک ہی مقصد تھا کہ پر امن طریقے سے معاملات کا حل نکل آئے ۔ موجودہ بجلی بلز کی ادائیگی میں پندرہ دنوں کی توسیع کر دی گئی ہے ۔ پہلے دن طے کر لیا تھا کہ ہر صورت جماعت اسلامی کو احترام دینا ہے اور پر امن احتجاج کے حوالے سے جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں میرے اور اپنے حافظ کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر یہ مذاکرات کئے اور شہباز شریف نے پہلے دن کہہ دیا تھا کہ جماعت اسلامی کو مکمل طور پر احترام دینا ہے انہوں نے ان معاملات کی منظوری دے دی ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی دیگر تمام جماعتوں کو بھی عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے اس طرح کے پر امن احتجاج کی توفیق دے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ ان لوگوں سے ان رہنماوں سے پرانا رشتہ تھا اور ان رابطوں سے یہ پرانا سلسلہ پھر جڑ گیا ۔ پہلے دن کہہ دیا تھا جماعت اسلامی کا جو مطالبہ ہے یہی ہمارا ایجنڈا ہے ۔ پہلے دن اقدامات کرتے ہوئے بجلی صارفین کو پچاس ارب روپے کی سبسڈی دی گئی اور جون جولائی اگست کے بلوں میں ریلیف دیا گیا ۔ مسلسل رابطہ رہا ۔ عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا ۔

وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاءاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کا مقصد عوام کو ریلیف دلانا اور ہمارا مقصد عوام کو ریلیف دینا ہے، جماعت اسلامی کا مطالبہ ہمارا ایجنڈا ہے، عوام کو ریلیف کی فراہمی ہماری ترجیح ہے۔ یہ بات انہوں نے جمعرات کی شب یہاں جماعت اسلامی سے مذاکرات کے بعد دھرنا کے شرکاءسے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر وزیر داخلہ محسن نقوی، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان سمیت لیاقت بلوچ، نصراللہ رندھاوا، امیر العظیم، فراست شاہ اور دیگر موجود تھے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جماعت اسلامی کا مطالبہ ہمارا ایجنڈا ہے، جب ان کا مطالبہ اور ہمارا ایجنڈا ایک ہے تو اس میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے۔ جماعت اسلامی کا مقصد عوام کو ریلیف دلانا اور ہمارا مقصد عوام کو ریلیف دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لئے 50 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہم نیک نیتی سے بیٹھے اور مزید ریلیف کے راستے پیدا ہوئے، لیاقت بلوچ صاحب نے جو اعلانات کئے ہیں ہم اس کی تائید کرتے ہیں اور حکومت اس پر عمل پیرا رہے گی، ہمارا رابطہ مسلسل رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز، بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے کمیٹیوں کے اجلاس یقینی بنائے جائیں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ فلسطین میں اسرائیلی فورسز کے مظالم جاری ہیں، آج اس فورم کے توسط سے اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، انسانی حقوق کے فورمز اور اقوام متحدہ اسرائیل کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں، اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، اس سے حساب لیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو ریلیف دینا ہمارا فرض ہے، یہ فرض نبھائیں گے۔ قبل ازیں حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے جماعت اسلامی کے ساتھ مذاکرات کئے۔ حکومت کی طرف سے مذاکراتی ٹیم میں وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ، وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیراعظم کے میڈیا کوآرڈینیٹر شہباز بدر وڑائچ شامل تھے جبکہ جماعت اسلامی کی طرف سے حافظ نعیم الرحمان، لیاقت بلوچ، امیر العظیم نے مذاکرات میں شرکت کی۔ آر پی او راولپنڈی اور کمشنر راولپنڈی بھی اس موقع پر موجود تھے۔\