چیئرمین پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین اور سابق وزیر اعلیٰ محمود خان نے کہا ہے کہ وفاق اور صوبہ موجودہ صورتحال میں ڈیلیور نہیں کرسکتے،
پی ایس ڈی پی میں ہمارے دور کے منظور شدہ ترقیاتی منصوبوں کو وفاقی حکومت کی جانب سے بند کرنا خیبر پختونخواہ کے عوام کے ساتھ سوتیلی ماہ جیسے سلوک کے متراد ف ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔
صوبائی حکومت نے بھی سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں 18 ارب روپے کے منصوبے ختم کرکے سوتیلی ماں جیسا کردار ادا کیا ہے،
رواں مالی سال میں خیبر پختونخوا کے لئے پروونشل سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام(PSDP) میں مختص شدہ منصوبوں کے فنڈز ختم ہونے پر افسوس ہوا،
وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کرتا ہوں کہ صوبے کے ترقیاتی فنڈز کا اجرا کیا جائے،
میں وزیر اعلی علی امین گنڈا پور سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کی اسکیمں واپس کئے جائیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور میں پارٹی قائدین کے اجلاس سے خطاب اور بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اجلاس میں صوبے بھر کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے قائدین سمیت مرکزی اور صوبائی عہدیداروں نےبڑی تعداد میں شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے خیبر پختو نخواہ کے عوام سے تعصب کی بنیاد پر صوبائی حکومت کی سوات موٹر وے فیز ٹو سمیت 91 منصوبوں کو پی ایس ڈی پی پروگرام سے نکال دیا ہے جو کسی صورت عوام دوست فیصلہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی آپس کی لڑائی سے صوبہ بری طرح متاثر ہورہا ہے مگر اس کا احساس تو نہ وفاقی حکومت کو ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت اس میں سنجیدہ ہے انہوں نے کہاکہ عوامی مینڈیٹ ملنے کے باوجودصوبائی اور وفاقی حکومت عوامی مینڈیٹ کی دھجیاں اڑارہی ہیں اور دہشت گردی،انتہا پسندی،زلزلوں اور سیلاب سے متاثرہ ہونے کے باجود صوبہ خیبر پختونخوا کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
جس کی وجہ سے صوبے کی ترقی کی رفتار بھی متاثر ہوگئی ہے۔انہوں نے کہاکہ قومی اسمبلی میں موجود صوبے سے منتخب ہونے والے ممبران فوری طور پران ترقیاتی منصوں کے لئے آواز اٹھانے کے لئے موثر کردار ادا کریں۔
ہمارے پاس بھی سٹریٹ پاور موجود ہے اور ہم نے پہلے بھی اس صوبے میں ڈیلیور کیا ہے اور یہاں پر میں واضح کردو کہ خیبر پختونخوا میں ہماری پارٹی پارلمینٹرین کی ضرور پڑیں گی کیوںکہ اس صوبے کے غریب عوام کو بحران سے نکالنے کے لیے ہمارے ساتھ تجربہ ہے جس کے بدلوت ہم اس صوبے کے عوام کو مشکلات سے نکالنے میں کردارادا کرسکتے ہے۔
اس انتخابت میں ہم نے دیکھا ہے کہ انتخابات ہارنے اور جیتے والا دونوں کہہ رہے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے اور اس افراتفری کے ماحول میں سسٹم نہیں چل سکتا اور نہ ہی وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں ڈیلیور نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کے معاملے پررابط کیا جبکہ ہمارے میٹینگز پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کے ساتھ رابطے ہوئے ہیں،
ہماری جماعت کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ ضم نہیں ہوں گی دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے لیے ہماری پارٹی کے دروازے کھلے ہیں،
ہم نے وفاقی حکومت میں بھی اپنا حصہ مانگا ہے اور ترقیاتی فنڈز کا بھی مطالبہ کیا ہے،
جب صوبے میں امن ہو گا تب ہی ترقی ہو سکے گی،امن کے بغیر خوشحالی اور ترقی ممکن نہیں،پہلے صوبائی حکومت امن پر توجہ دیں، پھر وفاق کی بات کریں،
ملاکنڈ ڈویژن میں 18 ارب کے منصوبے بجٹ سے نکال دیے گئے ،مرکز اور صوبائی حکومت کوئی ڈیلور نہیں کر سکتا، مرکز اور صوبہ دونوں ہمارے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہے ہیں،
وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کرتا ہوں کہ صوبے کے ترقیاتی فنڈز کا دوبارہ اجرا کیا جائے،
علی امین سے کہتا ہوں درخواست کرتا ہوں کہ سوات سمیت مالاکنڈ ڈویژن کی اسکیمں واپس کیے جائیں، پی ٹی آئی کی جیل سے باہر کی لیڈر شپ کمپرومائز ہے، یہ نہیں چاہیتے کہ بانی چیرمین جیل سے باہر نکلے۔
کمپرومائز قیادت سے قیدی نمبر 804 کی آزادی کی توقع ممکن نہیں،
عمران خان کی آزادی کے لیے پارٹی قیادت کو جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا پڑےگا،
احتجاج اور مذکرات کا بھی ایک طریقہ کار ہوتا ہے،صوبے میں تیسرے نمبر پر ووٹ ہماری جماعت کو پڑیں