سینیٹ کی 30 نشستوں پر الیکشن کیلئے پولنگ جاری، کے پی میں الیکشن ملتوی

آباد: سینیٹ کی 30 نشستوں پر الیکشن کے لیے پولنگ جاری ہے جو شام 4 بجے تک جاری رہے گی جب کہ خیبرپختونخوا میں اپوزیشن اراکین کی درخواست پر سینیٹ الیکشن ملتوی کردیے گئے۔سینیٹ الیکشن کی پولنگ کے لیے قومی اسمبلی کا ہال پولنگ اسٹیشن میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں الیکشن کمیشن کا عملہ فرائض انجام دے رہا ہے۔30 نشستوں پر 59 امیدوار مدمقابلسینیٹ الیکشن میں 18 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو چکے اور آج 59 امیدوار مدمقابل ہیں۔سینیٹ کی 29 جنرل، 8 خواتین ، 9 ٹیکنو کریٹ یاعلماء اور 2 غیر مسلم کی نشستوں پر انتخاب ہو گا۔وفاقی دارالحکومت کی ایک جنرل ، ایک ٹیکنو کریٹ نشست پر، پنجاب کی 2 خواتین ، 2 ٹیکنو کریٹ یا علماء ، ایک غیر مسلم نشست پر انتخاب ہو گا۔اسی طرح سندھ کی 7 جنرل، 2 خواتین ،2 ٹیکنو کریٹ یاعلماء ، ایک غیر مسلم نشست پر انتخاب ہو گا۔پنجاب کی 7 جنرل نشستوں جب کہ بلوچستان کی تمام 7 جنرل نشستوں، 2 خواتین اور 2 ٹیکنوکریٹ یا علماء کی نشستوں پر امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں۔کے پی میں اپوزیشن کی درخواست پر الیکشن ملتوی

پختو نخوا کی 7 جنرل، 2 خواتین اور 2 ٹیکنو کریٹ کی نشست پر انتخاب ہونا تھا جو مخصوص نشست والے اراکین کا حلف نہ لیے جانے کی وجہ سے تنازع کا شکار ہے۔

خیبرپختونخوا اسبملی میں اپوزیشن کے احمد کریم کنڈی نےصوبائی الیکشن کمشنر کو درخواست دی جس میں الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہمارے 25 ارکان سے ابھی تک حلف نہیں لیا گیا اس لیے سینیٹ الیکشن ملتوی کیا جائے۔

ذرائع کے مطابق صوبائی الیکشن کمشنر نے اپوزیشن کی درخواست پرچیف الیکشن کمشنرسے رابطہ کیا تھا جس کے بعد صوبے میں سینیٹ کا الیکشن تاحکم ثانی ملتوی کردیا گیا۔

کے پی میں مخصوص نشستوں کا تنازع

خیبرپختونخوا میں اپوزیشن اراکین نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا جس میں استدعا کی گئی مخصوص نشستوں پر ان کے 25 اراکین سے حلف لیا جائے، حلف نہ لیاجائے تو الیکشن ملتوی کیا جائے۔

اپوزیشن کے ان 25 اراکین سے حلف لیا گیا اور اس کے بعد انتخابات ہوئے تو اپوزیشن کو سینیٹ کی 11 میں سے 4 نشستیں ملیں  گی، اگر حلف نہ لیا گیا تو 11 میں سے 10 نشستیں حکومت کو ملنے کا امکان ہے۔

سندھ

سندھ میں بھی سینیٹ انتخاب کے لیے پولنگ شروع ہوگئی ہے، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ جو مقابلہ کرنےبیٹھے وہ بائیکاٹ کرگئے، 12 نشستیں جیت جائیں گے۔

سندھ میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے 12 میں سے 10 نشستیں جیتنے کا امکان ہے۔

سندھ میں 7 جنرل، 2 ٹیکنوکریٹ، 2 خواتین اور ایک اقلیتی نشست پر الیکشن ہورہا ہے، 12 نشستوں پر 20 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں پی پی کے 11 امیدوار ہیں۔

سندھ میں پی پی کے امیدواروں میں سید مسرور، سید کاظم علی شاہ، جیان خان سرفراز، ندیم بھٹو، دوست علی جیسر، اشرف علی جتوئی، سرمد علی، ضمیر حسین، پنجو، قرۃالعین مری اور روبینہ قائم خانی شامل ہیں۔

ایم کیو ایم کی طرف سے جنرل نشست کے لیے عامر چشتی امیدوار ہیں جب کہ سنی اتحاد کونسل کی مہ جبیں ریاض، علی طاہر، میر راجہ خان، عبدالوہاب، منظور احمد بھٹہ اور بھگوان داس شامل ہیں۔

پنجاب 

پنجاب میں بھی سینیٹ کی 5 نشستوں کے لیے (ن) لیگ اور سنی اتحاد کونسل میں مقابلہ ہوگا، پنجاب اسمبلی میں صوبائی الیکشن کمشنر اعجاز چوہان ریٹرننگ افسر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

پنجاب میں سینیٹ کی 12 نشستوں میں سے 7 مختلف جماعتوں کے سینیٹر بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں جن میں (ن) لیگ کے پرویز رشید، ناصر محمود، طلال چوہدری، وفاقی وزیر برائے اقصادی امور احمد چیمہ اور وزیر داخلہ محسن نقوی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ پنجاب سے سنی اتحاد کونسل کے راجہ ناصر عباس اور حامد خان بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہوچکے ہیں۔

پنجاب میں ٹیکنوکریٹ کی نشست سے مصطفیٰ رمدے نے کاغذات واپس لیے جب کہ جنرل نشست پر شہزاد وسیم، مصدق ملک، ولید اقبال، عمر چیمہ اور خواتین کی نشست پر پی پی کی فائزہ ملک نے کاغذات واپس لیے۔

پنجاب میں سینیٹ کی 5 نشستوں پر الیکشن ہورہے ہیں جن میں 2 خوتین، 2 ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتی نشست شامل ہے۔

(ن) لیگ کی طرف سے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور مصدق ملک ٹیکنوکریٹ کی نشست پر امیدوار ہیں جب کہ انوشہ رحمان اور بشریٰ انجم خواتین کی نشست پر الیکشن لڑرہی ہیں، اس کے علاوہ سنی اتحاد کونسل نے صنم جاوید کو نامزد کیا ہے۔

پنجاب میں اقلیت کی نشست پر (ن) لیگ کے خلیل طاہر سندھو کے بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے کا امکان ہے۔

اسلام آباد

اسلام آباد میں ایک جنرل اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست پر الیکشن ہورہا ہے جہاں پیپلز پارٹی نے محمود الحسن اور (ن) لیگ نے اسحاق ڈار کو امیدوار نامزد کیا ہے جب کہ سنی اتحاد کونسل کے فرزند حسین اور راجہ انصر محمود الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

ممبران قومی اسمبلی کیلئے ہدایت نامہ

سینیٹ الیکشن کے لیے ممبران قومی اسمبلی کیلئے الیکشن کمیشن نے ہدایت نامہ جاری کردیا گیا ہے۔ 

ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ بال پوائنٹ کے ذریعے بیلٹ پیپرز پر ترجیحات درج کرنا ہوں گی، ترجیحی امیدوار کے نام کے سامنے 1 لکھنا ہوگا، دوسرے امیدوارکے سامنے 2 لکھنا ہوگا، ترجیح صرف انگریزی یا اردو میں درج کرنا ہوگی، اردو اورانگریزی کو ملاکرلکھنے سے ووٹ مسترد ہوگا۔

ہدایت نامے میں مزید کہا گیا ہےکہ ہندسہ 1 ایک سے زائد ناموں کے سامنے درج ہونے سے ووٹ مسترد ہوگا، کسی امیدوارکے نام کے سامنے ہندسہ 1 کےساتھ کوئی دوسراہندسہ درج نہ ہو۔

سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کا تعین کس طرح ہوگا؟

ایوان بالا سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹ پیپرزکےذریعے ترجیحی بنیادوں پرہوگا، انتخابات میں کسی امیدوار کا کوئی انتخابی نشان نہیں ہوگا، بیلٹ پیپر پر امیدواروں کے نام حروف تہجی کے تحت درج ہوں گے، ہر ووٹر اپنی پہلی، دوسری اور تیسری ترجیح کے تحت بیلٹ پیپر پر موجود خانے میں عددی نمبر لگا کر اپنا ووٹ کاسٹ کرےگا۔

کامیاب امیدواروں کے بچ جانے والے ووٹ دوسرے ترجیحی امیدواروں کو منتقل کردیےجائیں گے۔

ووٹ گننے کے عمل میں سب سے پہلے بیلٹ پیپرز کی اسکروٹنی کی جائےگی، درست ووٹوں کے بیلٹ پیپرز کو علیحدہ کر کے مسترد ووٹوں کو نکال دیاجائےگا۔

تمام صوبائی اسمبلیوں میں ایک درست بیلٹ پیپر کی ویلیو 96، یعنی ایوان بالا کے کُل ممبران کی تعداد ہے لیکن وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک جنرل اور ایک ٹیکنوکریٹ نشست اور پنجاب اور سندھ کی ایک ایک غیر مسلم نشست کی ویلیو بھی ایک ہے۔

سینیٹ الیکشن کا فارمولا

سینیٹ الیکشن کے لیے درست بیلٹ پیپرز کی تعداد کو 96 سے ضرب دے کر اسے نشستوں کی تعداد سے تقسیم کردیاجائےگا اوریوں جواب میں آنے والا عدد ایک کوٹہ بن جائےگا۔

سینیٹ کا الیکشن جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کوٹے سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جائیں، ووٹ گننے کے عمل میں تمام امیدواروں کو ملنے والے پہلے ترجیحی ووٹ کے تناسب سے پیکٹس بنا دیے جائیں گے جو امیدواروں کے لیے ملنے والی پہلی ترجیح کے اعتبار سے ہوں گے۔

امیدواروں کو ملنے والی پہلی ترجیح کے ووٹ کو 100 سے ضرب دیا جائےگا، کوٹے سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کامیاب قرار دیے جائیں گے اور انہیں ملنے والے اضافی ووٹ دیگر امیدواروں میں بانٹ دیے جائیں گے۔

ایسا کرتے ہوئے اضافی ووٹوں پر ووٹرز کی دوسری ترجیح والے امیدوارکو دیکھاجائےگا اور ایک بارپھرکوٹہ بنےگا۔ اس کے بعد دوسری ترجیح والے امیدواروں کے ووٹوں کی گنتی ہوگی، دوسری ترجیح پر زیادہ ووٹ لینے والا کامیاب قرارپائے گا۔

اضافی ووٹ ختم ہو جانے پر امیدواروں کے اخراج کا سلسلہ شروع کردیاجائےگا، سب سے کم ووٹ لینے والا مقابلے سے باہر ہو جائےگا اور اسے ملنے والے اصل ووٹ دیگر امیدواروں میں منتقل کردیے جائیں گے۔