میاں داود ایڈووکیٹ کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کے چھ ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں عمومی نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیں، اس خط کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنے اور عوامی اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی،خط سے پی ٹی آئی کے کیسز پر اداروں کے اثرانداز ہونے کا تاثر ملا،خط میں صرف ایک کیس کا حوالہ دیا گیا،ریکارڈ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کئی مرتبہ پی ٹی آئی کو ریلیف دیا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم کو ظل شاہ قتل سمیت انسدادِ دہشتگردی کے 3 مقدمات میںں ضمانتیں دیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں بانی پی ٹی آئی کو دو ہفتوں کی ضمانت دی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے 9 مئی واقعے کے بعد بانی پی ٹی آئی کو 17 مئی تک کسی بھی کیس میں گرفتار کرنے سے روکا، بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل میں ایک لگژری سٹائل والی زندگی گزار رہے ہیں، لاہور ہائیکورٹ نے بھی کئی کیسز میں بانی پی ٹی آئی کو ریلیف دیا،یہ عدالتی روایت ہے کہ جب کسی جج کو اپروچ کیا جائے تو وہ کیس سننے سے معزرت کر لیتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کا لکھا گیا خط ایک ڈیزائن کیا گیا اقدام لگتا ہے،جیسے ہی یہ خط منظر عام پر آیا سوشل میڈیا پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف مہم شروع کی گئی، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ججز کے 25 مارچ کے خط میں لگائے الزامات کی انکوائری کیلئے انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے، کمیشن کی انکوائری میں جو بھی مس کنڈکٹ کا مرتکب پایا جائے اس کیخلاف سخت ایکشن لیا جائے،درخواست میں وفاقی حکومت اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کو فریق بنایا گیا ہے۔