کرم کے علاقے بگن میں ڈپٹی کمشنر پر فائرنگ کے واقعے کے بعد سامان سے بھرے ٹرک دوسرے روز بھی پاراچنار روانہ نہ ہو سکے

پاراچنار
ضلع کرم کے علاقے بگن میں ڈپٹی کمشنر پر فائرنگ کے واقعے کے بعد سامان سے بھرے ٹرک دوسرے روز بھی پاراچنار روانہ نہ ہو سکے جس کے باعث تین ماہ سے آمد و رفت کے راستوں کی بندش سے محصور لوگوں کی مشکلات مزید بڑھ گئے ہیں
پولیس ذرائع کے مطابق گزشتہ روز لوئر کرم کے علاقے بگن میں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ مسعود اور ایف سی حکام امن معاہدے کے بعد کانوائی کے لیے راستہ کلیر کرنے کے لیے لوئر کرم کے علاقے بگن پہنچے جہاں پر دھرنے میں شریک لوگوں کو ہٹانے کی کوشش کی گئی جس پر ہاتھا پائی کے بعد فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود سمیت سات افراد زخمی ہو گئے واقعے کے بعد پاراچنار جانے والے سامان سے بھرے ٹرکوں کی کانوائے چھپری چیک پوسٹ سے واپس کر کے ٹل میں روک دی گئی دوسرے روز بھی ٹرکوں کا یہ قافلہ پاراچنار کے لیے روانہ نہ ہو سکا جس کی وجہ سے علاقے میں آمد و رفت کے راستوں کی وجہ سے تین ماہ سے محصور لوگوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہے اور شہر میں سے اشیائے خورد اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قلت سے لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں سول سوسائٹی ضلع کرم کے جنرل سیکرٹری علی جواد کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاراچنار ہسپتال اور محکمہ صحت کے دیگر مراکز کا جو سروے کیا ہے اس کے مطابق اب تک 140 بچوں سمیت 217 لوگ علاج نہ ملنے کے باعث جاں بحق ہو گئے ہیں پاراچنار میں شہریوں کا روڈ کی بندش کے خلاف پریس کلب کے باہر احتجاجی دھرنا تین ہفتوں سے جاری ہے دوسری جانب بگن میں فائرنگ کے واقعے کے بعد بگن کے شہروں نے بگن سے احتجاجی دھرنا مندوری منتقل کر دیا ہے جہاں پر اپنے مطالبات کے لیے بگن قبائل کا دھرنا جاری ہے
سماجی راہنما مسرت بنگش کا کہنا تھا کہ لوئر کرم میں کئی سالوں سے مسافر گاڑیوں پر فائرنگ اور گاڑیوں کو لوٹنے کے واقعات ہورہے تھے مگر حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی تھی اب ڈپٹی کمشنر اور پولیس و ایف سی پر فائرنگ سے ہماری مظلومیت کا اندازہ حکومت کو لگ گیا ہوگا اور اتنے بڑے جرم کے ارتکاب کے بعد بھی روڈ کھولنے کی اجازت نہ دینا حکومت کی کارکردگی اور جانبداری پر سوالیہ نشان ہے