اسلام آباد ہائی کورٹ میں پر امن احتجاج بل کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے اٹھایا کہ اگر ایک دم پچاس لوگ شاہراہِ دستور پر آجائیں تو کیا ہوگا؟

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پر امن احتجاج بل کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے اٹھایا کہ اگر ایک دم پچاس لوگ شاہراہِ دستور پر آجائیں تو کیا ہوگا؟ ریمارکس دیے کہ آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ بلاک کر دیا جائے۔۔۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پر امن احتجاج بل کے خلاف درخواست کی سماعت چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ہوئی۔ وکیل انتظار حسین پنجوتھہ کی درخواست پر سماعت کے دوران وکیل درخواست گزار سمیت کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ پر امن احتجاج بل غیر قانونی ہے اور اس پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال اٹھایا کہ اگر ایک دم پچاس لوگ شاہراہِ دستور پر آجائیں تو کیا ہوگا؟ انہوں نے مزید کہا کہ آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ بلاک کر دیا جائے۔چیف جسٹس نے مزید وضاحت کی کہ اگر ہم سب کمرہ عدالت سے باہر جا کر شاہراہ دستور کو بلاک کر دیں تو کیا یہ مناسب ہوگا؟اس طرح تو دوسرے آنے جانے والوں کی آزادی متاثر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ریڈ زون میں آئے روز احتجاجات کی وجہ سے سڑکیں بند ہو جاتی ہیں، اور یہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔درخواست گزار کے وکیل نے دلائل میں موقف اپنایا کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 15 اور 19 کے خلاف ہے۔جو آزادی نقل و حرکت اور اظہار رائے کی ضمانت دیتے ہیں۔چیف جسٹس نے درخواست کو دیگر اسی نوعیت کی درخواستوں کے ساتھ یکجا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اس پر جلد فیصلہ جاری کرے گی۔