سپریم کورٹ کا فیصلہ اور بنوں کے لاکھوں لوگوں کا امن مارچ “علی احمد کرد

“سپریم کورٹ کا فیصلہ
اور بنوں کے لاکھوں لوگوں
کا امن مارچ “
علی احمد کرد
سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے کے بعد وہ سارے سیاسی اور غیر سیاسی حلقے جن پہ یہ ایک شہاب ثاقب کی طرح اکر گرا ہے مختلف متاثرہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس کی تشریح اور اس پہ رائے زنی تو سمجھ اتی ہے مگر الیکشن کمیشن جو ہر حالت میں مکمل طور پہ اس فیصلے کی عمل درامد کی ذمہ دار ہے اس نے بھی کھلے الفاظ میں سپریم کورٹ سے کئی امور پہ تشریحات مانگی ہیں جو کہ اس ملک کی جوڈیشل ہسٹری میں پہلا واقعہ ہے حالانکہ الیکشن کمیشن ایک ائینی ادارہ ہونے کی بنا پر بغیر کسی چو چراء کے سپریم کورٹ کے حکم کی پابندی کی ذمہ دار ہے مگر اپنے اس ذمہ داری کو پوری طرح سمجھتے ہوئے بھی اگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے سامنے ا کر کھڑی ہو گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی اوپر سے گدلا ہو کے ا رہا ہے اگر کچھ دیر کے لیے یہ تصور بھی کر لیا جائے کہ پانچ ججز کا فیصلہ اکثریتی فیصلہ ہوتا تو کیا الیکشن کمیشن جس کے فیصلے میں کئی ایسی خامیاں موجود تھی جس کی وجہ سے صاف نظر ا رہا تھا کہ الیکشن کمیشن اتنا ازاد نہیں رہا کہ جتنا اسے ائین کی رو سے ازاد رکھا گیا ہے تو کیا اس صورت میں بھی الیکشن کمیشن کا یہی منہ زور رویہ ہوتا , صرف الیکشن کمیشن ہی نہیں بلکہ وہ متاثرہ سیاسی جماعتیں بی جن کے پاس ہر وقت بڑے دماغ والے وکیل موجود رہتے ہیں ان کی حیرانگی بھی قابل دید ہے کہ مکمل فیصلہ ابھی ایا نہیں اور نظر ثانی کی درخواست داخل بھی ہو چکی جس کو سپریم کورٹ رولز ۱۹۸۰ کے مطابق اعتراض لگا کے واپس کیا جانا تھا مگر بالکل اس کے برخلاف اس نظر ثانی درخواست کو باقاعدہ کاروائی کے لیے ججز کمیٹی کے پاس بھی بھیجا گیا ایسا کیوں ہو رہا ہے یہ سارا رولا اس لیے ڈالا گیا کہ ایک بہت ہی بڑے اور اہم ترین ائینی ادارے نے اپنے راستے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اگر ملک چلانا ہے اور دنیا کے سامنے عزت و احترام کا مقام حاصل کرنا ہے تو اداروں اور لوگوں کو ازاد ہونےکی رویے پہ کاربند ہونا پڑے گا جس کی سب سے اعلی مثال صرف دو دن پہلے بنوں میں لاکھوں لوگوں کا امن اور ازاد رہنے کی خواہش کے لیے سڑکوں پہ باہر نکلنے کا عمل ہےمگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس امن کے مارچ پر بھی گولیاں چلائی گئی _