کسٹم ڈیوٹی میں اضافے کے بعد پاکستان کو تازہ پھلوں کی برآمدات بند
رپورٹ: سیف العادل احرار
افغانستان اور پاکستان کے مشترکہ چیمبر آف کامرس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کسٹم ٹیرف میں اضافے کے بعد اس ملک کو تازہ پھلوں اور سبزیوں کی برآمد دو ہفتوں کے لیے روک دی گئی ہے۔
پاکستان کی جانب سے تازہ پھلوں اور سبزیوں پر کسٹم ڈیوٹی میں اضافے کے دو ہفتے گزر چکے ہیں اور اس عرصے کے دوران تاجروں نے پاکستان کو سپلائی روک دی ہے۔ متعدد تاجروں کا کہنا ہے کہ اس ٹیرف سے تازہ پھلوں کی برآمد ان کے لیے مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔
ایک تاجر فاروق احمدی کہنا ہے کہ ہر سال جب افغانستان کا ایکسپورٹ سیزن آتا ہے تو پاکستان یہ مسئلہ پیدا کرتا ہے اور وہ ٹیکس بڑھاتا ہے، اس بار پھر ٹیکس سے مستثنی پھلوں اور سبزیوں پر اس نے 18 فیصد ٹیکس بڑھا دیا۔
ایک اور تاجر معشوق حبیبی کا کہنا ہے کہ پچھلے سالوں میں ہم فی ٹن 15 ہزار ٹیکس ادا کرتے تھے لیکن اب ہم 60 ہزار فی ٹن ٹیکس دیتے ہیں۔ اس لئے گزشتہ سال کے مقابلے ہماری برآمدات میں بھی کمی آئی ہے۔
افغانستان- پاکستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے سربراہ خان جان الکوزی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے تازہ پھلوں کی مانگ دیگر ممالک جیسے بھارت، بنگلہ دیش اور روس کی منڈیوں میں بھی ہے، اس لئے حکومت کو چاہیے کہ چابہار اور وسطی ایشیائی ممالک کے ذریعے ان ممالک کو برآمدات میں سہولیات فراہم کرے۔
ان کے مطابق ہمیں ہوائی راہداری کو بھی زیادہ فعال کرنا چاہیے، کیونکہ ہمارے پھلوں اور سبزیوں کا موسم مختصر ہوتا ہے جو ایک ماہ تک چلتے ہیں، جیسے آڑو، آلو اور دیگر، اس لئے ان کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
وقتا فوقتا بندرگاہوں کی بندش اور کسٹم ٹیرف میں اضافے سے پاکستان کو برآمدات کی سطح میں کمی آئی ہے۔
علاوہ ازیں پاکستان میں بھی تاجروں نے افغانستان کے تازہ پھلوں اور سبزیوں پر 18 فیصد ٹیکس عائد کر نے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پشاور میں افغانستان- پاکستان چیمبر آف کامرس اور مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 2024 اور 2025 کے بجٹ میں افغانستان سے آنے والے تازہ پھلوں اور سبزیوں پر 18 فیصد ٹیکس عائد کیا ہے جس سے پاکستان میں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس سے تاجر برادری اور عوام دونوں شدید متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستانی تاجروں کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں افغانستان سے پھلوں اور سبزیوں کی درآمد پر ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے انہیں کروڑوں پاکستانی روپے کا نقصان ہوا ہے۔
سیلز ٹیکس بڑھانے سے پاکستان کے عوام پر بھی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کی صورت میں منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اسلام آباد میں تاجر حاجی شاہ زیب کا کہنا ہے کہ خوبانی پہلے فی ٹن 15 ہزار تھا، اب فی ٹن 60 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے، انگور پہلے فی ٹن 19 ہزار روپے تھا، اب 77 ہزار تک پہنچ گیا، اسی طرح آنار پہلے فی ٹن 27 ہزار روپے تھا، اب 1 لاکھ 8 ہزار تک اس کی قیمت بلند ہوگئی ہے، یعنی مجموعی طور فی کلو 40 روپے سے 70 روپے تک ٹیکس بڑھ گیا ہے جس کے منفی اثرات مارکیٹ پر پڑے ہیں اور تاجروں نے کروڑوں روپے نقصان کیا ہے۔
پشاور میں افغانستان- پاکستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے سربراہ ضیاء الحق سرحدی نے پھلوں اور سبزیوں پر سیلز ٹیکس بڑھانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات پر منفی اثرات پڑیں گے، کیونکہ پاکستان کی جانب سے مالٹا، کیلا، آم اور دیگر پھلوں کی برآمدات پر افغانستان بھی ٹیکس بڑھائے گا جس سے دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات متاثر ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلز ٹیکس بڑھانے سے اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوگا جب کہ عام مارکیٹ میں قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے جس سے مہنگائی مزید بڑھے گی اور دونوں ممالک کی تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوں گی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستان نے افغانستان سے درآمد کرنے والے تمام تازہ پھلوں اور سبزیوں پر سیلز ٹیکس معاف کیا تھا صرف پیاز اور سیب پر سیلز ٹیکس مقرر تھا، تاہم نئے بجٹ میں اس نے افغانستان سے درآمد کرنے والے تمام زرعی اجناس اور پھلوں پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگا دیا۔
دریں اثناء امارت اسلامیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ افغان تاجروں کے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ بات چیت جاری ہے، امید ہے کہ اس کا کوئی حل نکل آئے گا۔
اسلام آباد میں افغان سفیر سردار احمد شکیب کا کہنا ہے کہ ہر سال پھلوں کے سیزن کے موقع پر پاکستان کی جانب سے ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں، گزشتہ سال بھی پاکستان نے افغانستان کے پھلوں پر ٹیکس عائد کیا تھا تاہم جب ہم نے ان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکس غلطی سے لگایا گیا ہے اور اس کو ختم کر دیا، لیکن جب حال ہی میں اس نے ایک بار پھر افغانستان کے تازہ پھلوں اور سبزیوں پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگایا تو ہم نے وزارت تجارت کے حکام سے رابطہ کیا اور تاجروں کا یہ مسئلہ ان کے سامنے پیش کیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ اقدام آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اٹھایا ہے، کیونکہ اس نے تمام چھوٹ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاہم اس مسئلہ کے حل کے لئے انہوں نے تجویز پیش کی کہ دو طرفہ چھوٹ کے ذریعے یہ مسئلہ ختم ہو سکتا ہے، افغانستان بھی پاکستان کی برآمدت پر سیلز ٹیکس معاف کرے اور پاکستان بھی اس کے بدلے افغانستان کی درآمدات پر سیلز ٹیکس ختم کرے گا۔
سردار احمد شکیب کا کہنا ہے کہ ہم نے ان کا پیغام کابل میں اپنی حکومت تک پہنچایا ہے جس پر افغان حکومت غور کررہی ہے۔ توقع ہے کہ جلد ہی کوئی ایسی پیشرفت سامنے آئے گی جو دونوں ممالک کے لئے قابل قبول ہو۔
وزارت صنعت و تجارت کی معلومات کے مطابق رواں سال کے پہلے پانچ ماہ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان 937 ملین ڈالر کی تجارت ہوئی ہے جس میں پاکستان کو افغانستان کی برآمدات 294 ملین ڈالر ہیں جو گزشتہ سال کے پانچ مہینوں کے مقابلے میں 32 فیصد کمی آئی ہے۔
کابل(الامارہ)
ایرانی میڈیا نے بتایا کہ افغانستان اور ایران کے درمیان دوغارون راستے کے ذریعے باہمی تجارت تین ارب ڈالر تک بڑھ گئی ہے۔
ایران کے صوبہ خراسان رضوی کے حکام کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر تجارتی سامان سے لدی تقریباً 1200 گاڑیاں اس راستے سے دونوں ممالک کے درمیان سفر کرتی ہیں۔
ایرانی حکام نے ظاہر کیا ہے کہ دوغارون راستہ افغانستان کے ساتھ ایک اہم تجارتی راستہ ہے۔