کراچی کے آلودہ سمندری پانی کو 26 سال بعد صاف کرنا کا آغاز ہوگیا ہے،

کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) ملک کا سب سے بڑا سیوریج ٹریٹمنٹ (TP-III) پروجیکٹ نے 26 سال بعد کام شروع کردیا ہے جس سے کراچی کے سمندر کو دلدلی زمین،آلودہ پانی کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی سے بھی پاک کردیا جائے گا اور کام مراحلہ وار مکمل کیا جائے ہے۔ اب تک ساڑھے تین کلومیٹر سمندری پانی کو صاف کردیا گیاہے۔گندھے پانی کو صاف کرنے کا پروجیکٹ جاری رہا تو مزید 38 کلومیٹر سمندر کا پانی صاف ہونے کی توقع ہے، جس کے نتیجے میں سمندری حیات, کراچی کے ساحلی علاقوں کے ساتھ بندر گاہ پر بھی ماحولیاتی بہتری آئے گی جس سے سمندر کو ایک نئی زندگی ملنے کی توقع ہے۔ وفاقی و سندھ کی صوبائی حکومت کی نااہلی، غفلت اور عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی گندے پانی کا شہر بن گیا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے کی مالی مدد سے 1997ء میں ماری پور میں ٹریٹمنٹ پلانٹ TP-III کی تعمیر کے ایک سال بعد کام بند کر دیا گیا تھا۔ گندے پانی کو براہ راست سمندر میں جانے سے پانی آلودہ، زمین دلدلی، سمندری حیات تباہ اور ماحولیاتی آلودگی دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔ 1960 میں بننے والے کراچی کا دوسرا ٹریٹمنٹ پلانٹ TP-II کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی غفلت اور عدم توجہی کے باعٹ بند ہوگیا تھا۔ زمینوں پر قبضے اور چائنا کٹنگ کی وجہ سے مزید علاقے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ کراچی کا پہلا ٹریٹمنٹ پلانٹ TP-I ہارون آباد شیرشاہ میں1955 میں بنا تھا۔ 1990ء کے دہائی میں اس ٹریٹمنٹ پلانٹ نے کام بند کر دیاگیا تھا۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے افسران و عملے نے مشینری مراحلہ وار فروخت کردی تھی۔پلانٹ کی بڑی بڑی موٹرز بھی چوری ہوچکی ہے لیکن یہ کام افسران و عملے کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ایک رپورٹ میں کراچی کے 42 کلومیٹر سمندر کو آلودہ قرار دیا جاچکا ہے۔واضح رہے کہ TP-1 میں ٹریٹمنٹ پلانٹ 30 سالوں سے بند تھا،جس میں 55 ملین گیلن آلودہ پانی کا ٹریٹمنٹ کیا جارہا تھا،اب اس کو بحال کرنا اور مزید 130 ملین گیلن پانی کیلیئے نئے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا ہے۔ ماری پور میں واقع TP-III کی تعمیرات التواء کا شکار ہے یہاں 77 ملین گیلن ٹریٹمنٹ کے باوجود 150 ملین گیلن کیلیئے نیا منصوبہ ابھی تک مکمل نہ ہوسکا۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے TP-III ماری پور میں 77 ملین گیلن یومیہ کے ایک منصوبے کا افتتاح 22 جولائی 2018ء کیا تھا۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی، عدم دلچسپی اور بدانتظامی کے باعث کراچی سیوریج کی ٹریٹمنٹ کا سب سے بڑا منصوبہ گذشتہ 7سال میں مکمل نہ ہوسکا۔ TP-1 ہارون آباد شیر شاہ، TP-III میں ٹریٹمنٹ پلانٹ چلانے اور لیاری ندی کا گندا پانی کنڈیو کا منصوبہ 24 ارب روپے مالیت میں مکمل ہونا تھا لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بروقت فنڈز جاری نہ ہونے اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باعث منصوبے کی لاگت میں 100 فیصد اضافہ کی توقع ہے۔ منصوبے پر اب تک 13 ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں جبکہ ٹھیکے داروں کے واجبات 80 کروڑ روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ لیاری ندی میں کنڈیو لائن کی تکمیل ہوچکی ہے اب صرف اس لائن کو ٹریٹمنٹ پلانٹ سے ملانا ہے۔ ٹھیکے دار منصوبے کو حوالے کرنے کو تیار ہیں ان کے سیکورٹی ڈپازٹ بھی واپس کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ TP-III ماری پور میں 77 ملین گیلن گندا پانی کو ٹریٹمنٹ کیا جارہا ہے۔ کراچی میں پانی کی فراہمی 650 ملین گیلن یومیہ ہے اور پانی کی فراہمی کا 70 فیصد سیوریج کے گندا پانی میں تبدیل ہوجاتا ہے یعنی 472 ملین گیلن یومیہ سیوریج کا گندا پانی سیوریج کے سسٹم کے ذریعے ندی نالوں میں بہہ رہا ہے۔ سیوریج کا نظام اور ٹریٹمنٹ کی گنجائش 150 ملین گیلن یومیہ تھی اور اب صرف 77 ملین گیلن گندا پانی کو ٹریٹمنٹ کر رہا ہے وہ بھی ماری پور ٹریٹمنٹ پلانٹ جس کو تاحال فنڈز جاری نہ ہونے پر بند ہونے کا خدشہ ہے۔ 395 ملین گیلن سیوریج کا پانی سمندرکو آلودہ کررہا ہے۔ اس وقت تین ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود ہیں جبکہ سیوریج کے چھ پمپنگ اسٹیشن موجود ہیں۔32 لائٹ پمپنگ اسٹیشن سیوریج کا موجود ہے جبکہ سیوریج کا مجموعی طور پر 5670 کلومیٹر کے سسٹم کا یہ گندا سیوریج کا آلودہ اور کیمیائی پانی کی چھوٹے بڑے نالوں اور ندی کے ذریعے سپلائی جاری ہے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر ایس تھری نظام الدین شیخ کا کہنا ہے کہ منصوبے میں دیکھ بھال، الیکڑیکل، میکنکل کے ساتھ ماحولیات کا مین بجٹ مختص نہیں ہے۔ منصوبہ کام کی رفتار دیکھ بھال اور چوکیدار کے لئے کوئی نظام موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے یہاں اکثر چوری چکاری اور زمینوں پر قبضہ کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ منصوبے میں 80 کروڑ کے واجبات بڑھ چکے ہیں،اس لیئے مزید پانچ ارب روپے فنڈز کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ نمائندہ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ منصوبے میں تاخیر کی وجہ فنڈز کی عدم دستیابی ہے،جس سے اس کے اخراجات میں بھی اضافہ ہے تاہم میں نے کنٹریکٹر، کنسلٹنٹ اور کارپوریشن کے تعاون سے مختصر مدت میں منصوبے کو بحال کردیا ہے۔ سات سال پہلے افتاح ہونے والے منصوبے کی موٹرز کی دیکھ بھال سے بہتر کیا ہے اور 150 ملین گیلن سیوریج ٹریٹمنٹ میں چھ دیگر پمپنگ ہاوس بند چکے تھے جن میں دو دو موٹرز بھی چل رہے ہیں۔ گندے پانی کے کنڈیو لائن جوڑنے کے بعد اس میں اضافہ ہو گا۔ ایک پمپ ہاوس بجلی نہ ہونے کے باعث جنریٹرز میں مختصر مدت میں چلایا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گندے پانی کا پہلے مراحلے میں فلٹر کرکے کچرے کو الگ کیا جاتا ہے، اس کے بعد فلٹر ہونے والے کو ٹریٹمنٹ کے بعد پمپنگ کے ذریعہ کنالوں سے جھیل تک لایا جاتا ہے جہاں سات روز تک پانی میں تمام گندگی صاف کرنے والے کیمیکل کی مدد سے صاف کیا جاتا ہے جس کے بعد صاف پانی کو کنال کے ذریعے سمندر میں سپلائی کیا جاتا ہے اور بہت کم عرصے میں سمندری پانی صاف اور آلودگی سے پاک ہو رہا ہے جہاں کبھی دلدل بن گیا تھا اب کئی ملیوں تک پانی میں نیلا آسمان اور بلو پانی نظر رہا ہے اور سمندری حیات محفوظ ہونے کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی بھی ختم ہو رہی ہے،اب ایسا لگ رہا ہے کہ سمندر کو ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔ ایس تھری پروجیکٹ کی کنسلٹنٹ کمپنی کا کہنا ہے کہ ماری پور ٹریٹمنٹ پلانٹ پر بنیادی تبدیلی کے ساتھ ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تزئین و آرائش اور دیکھ بھال کرکے بہتر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کنٹریکٹر پاک اویسس کے ارشاد احمد کا کہنا ہے کہ منصوبے کی دیکھ بھال کے اخرجات نہ ہونے باوجود پلانٹ اور موٹرز کو چلارہے ہیں اگر ہمارے واجبات ادا کر دیئے جائیں تو کام کی رفتار تیز کر دیں گے۔ منصوبہ کو مکمل کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے تاہم ڈالر میں اضافہ کے بعد منصوبے کے اخرجات بڑھ گئے ہیں لیکن اگر ہمارے مالی اخراجات کا معاملہ حل کر دیا جائے تو یہ مثالی منصوبہ بن جائے گا۔