ڈاکٹر خالد القدومی
ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کی جانب سے جاری پہلے بیان کے مطابق ایرانی فوج نے گزشتہ شب غاصب اور ناجائز صہیونی ریاست کے جرائم پر اسے سبق سکھانے کے لیے آپریشن ’صادق الوعد‘ کے ذریعے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں درجنوں میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے صہیونی اہداف کو نشانہ بنایا۔ کوڈ نام ’یارسول اللہ‘ کے تحت کیے گئے اس منظم، مربوط اور منصوبہ بند آپریشن کو ایران کے تمام متعلقہ اداروں کا تعاون حاصل تھا۔
یہ کارروائی یکم اپریل 2024ء کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر صہیونی قابض ریاست کے حملے کے ردعمل کے طور پر کی گئی ہے، جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے متعدد عسکری رہ نما شہید ہوئے۔
تحلیل وتجزیہ
یہ سوچا سمجھا اور منظم رد عمل اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت کیا گیا۔ اسی آرٹیکل کے تحت ایران نے تین جنوری 2020ء کو امریکہ کے ہاتھوں مارے جانے والے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا جواب دیا تھا۔ یہ وہی آرٹیکل ہے جو حملہ آوروں کا نشانہ بننے والے ملکوں کو اپنے دفاع کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ اس آرٹیکل کو امریکہ نے سلیمانی کے قتل میں بطور جواز استعمال کیا تھا۔
دمشق حملے کے بعد ایرانی وزارت خارجہ نے سفارتی اقدامات کیے اور یہ پیغام دیا کہ اس حملے پر ایران ہرصورت میں رد عمل دے گا۔
دمشق میں ہونے والے اسرائیلی حملے پربین الاقوامی ردعمل مایوس کن رہا اور عالمی سطح پر اس حملے کی مذمت نہیں کی گئی اور ایرانی قونصل خانے پر حملے کا ازالہ نہیں کیا گیا لیکن اسرائیل پر حملہ ہوتے ہی اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک ایران کے خلاف بول پڑے۔
یہ مذمت ایک ایسے وقت میں کی گئی جب امریکہ نے ایرانی حملے کو پسپا کرنے کے لیے اپنی فوجی مشین کا استعمال کیا۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق امریکہ اس میں کامیاب بھی رہا۔ حملے میں حصہ لینے والے بہت سے ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کو مقبوضہ علاقوں تک پہنچنے سے پہلے ہی روک دیا گیا، لیکن بائیڈن انتظامیہ نے نیتن یاہو سے رابطہ کرکے ان پر زور دیا کہ وہ تہران کے ردعمل پر مزید کسی جوابی کارروائی سے گریز کریں تاکہ مزید کشیدگی نہ پھیلے۔
عالم اسلام اور عرب ممالک کی طرف سے ایران کی کارروائی پر کسی قسم کا رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا اور زیادہ تر ممالک نے خاموشی اختیار کی اور اردن نے تو اپنی فضا سے گذرنے والے ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو بھی روکنے کی کوشش کی۔
جہاں تک تحریک مزاحمت کا تعلق ہے تو حماس نے اس حملے کو ایران کا آئینی، قانونی اور اصولی حق قرار دیا۔ حماس نے باور کرایا کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی غزہ کی پٹی میں جاری صہیونی جرائم پر توجہ ہٹانے کا باعث بن سکتی ہے۔
ایران کی جانب سے سیاسی اور عسکری محاذوں کے معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے آپریشن ’صادق الوعد‘ کو درج ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
1.ایران کے اندر سے اسرائیل پر یہ پہلا براہ راست حملہ ہے اور قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایران نے کسی بھی سخت عسکری کارروائی سے حتیٰ الامکان گریز کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔
- ایران کے اسرائیل پر حملے کے جواب میں تصادم کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے اسے ایران کی ممکنہ صلاحیتوں کے اظہار کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران فضائی، انٹیلی جنس اور جغرافیائی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے آئندہ کسی بھی جنگ میں استعمال کر سکتا ہے۔
- اس آپریشن کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ ایران ’طوفان الاقصیٰ‘میں شرکت کے لیے ایک قدم آگے بڑھ گیا ہے۔ اس طرح ایران براہ راست طوفان الاقصیٰ کا حصہ بن چکا ہے۔
چیلنجز اور امکانات
اسرائیل اور ایران کے درمیان محاذ آرائی سے ’طوفان الاقصیٰ‘ کے اثرات واضح نظر آتے ہیں کیونکہ عالمی جنگ جس کا جغرافیائی میدان غزہ میں تھا اس کے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ’جیو پولیٹیکل‘اثرات کے تناظر میں زمینی سطح پر فلسطینی مزاحمت کی معیاری پیش رفت کے اثرات پورے خطے میں دیکھے جا رہے ہیں۔
فلسطینی مزاحمت کی طرف سے فراہم کردہ اس موقع کے لیے فریقین کو جنگ میں اپنی شمولیت کی سطح کو بلند کرنے کی ضرورت ہے، بشرطیکہ یہ جنگ یروشلم پر مرکوز رہے، چاہے اس کے اثرات عالمی ہی کیوں نہ ہوں۔ کوئی شک نہیں کہ دفتری اندازے اور میدان کارزار کی حقیقت ایک جیسی نہیں ہو سکتی لیکن آج چیلنج یہ ہے کہ غزہ میں خون کی ہولی کو کیسے روکا جائے؟ اور جنگ کے دائرہ کو پھیلنے سے روکنے کی مربوط کوششوں اور حساسیت کے ذریعے کیسے روکا جائے۔
ایرانی رد عمل مکمل
دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر صہیونی حملے پر ایران کا فوری ردعمل ختم ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے جنگ کے اصولوں کو نسبتاً نقصان پہنچا ہے۔ اس طرح کہ اسرائیل کو اس کے جرائم کی سزا سے بچنا اب ممکن نہیں رہا۔
دوسری طرف ردعمل کی رفتار اب بھی معمولی اور سابقہ علاقائی اور بین الاقوامی سمجھوتوں میں بیان کردہ دائرے کے اندر رہی ہے۔ صہیونی ریاست کی قیادت میں انتہا پسندانہ ذہنیت اور تکبر موجود ہے۔
اس آپریشن نے اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے لیے کتنا دباؤ ڈالا ہے، ایک چیلنج ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جنگ کو روکنے اور مستقبل میں سیاسی کامیابی حاصل کرنے کا منصوبہ کیسے، کتنا اور کب پورا ہو گا؟ شاید یہ ایک طویل سفر ہے جو شروع ہوا ہے اور کبھی پلٹ کر نہیں آئے گا۔