سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے خصوصی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد کردی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ نے خصوصی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں کی سماعت کی۔آئینی بینچ نے جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ آئینی بینچ کو تسلیم کرتے ہیں؟وکیل نے جواب دیا کہ عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیےکہ اگر عدالت کا دائرہ اختیار تسلیم نہیں کرتے تو یہاں سے چلے جائیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ جیلوں میں پڑے ہیں ان کا سوچیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ خصوصی عدالتوں میں ٹرائل مکمل ہو چکے ہیں ، فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے۔اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اجازت دینے کا مطلب خصوصی عدالتوں کا اختیار تسلیم کرنا ہوگا۔جس کے بعد آئینی بینچ نے خصوصی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد کردی۔
آئینی بینچ نے26ویں ترمیم کے فیصلے تک خصوصی عدالتوں میں سویلینزکے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت موخرکرنے کی درخواست بھی خارج کردی۔ بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کو20 ہزار روپے جرمانہ کردیا ۔