چیف جسٹس کی سربراہی میں جس بنچ نے 63 اے کے کیس کی سماعت کی وہ غیر آئینی ہے۔ آئینی کے ساتھ عدالتی کرائسس بھی پیدا ہوگیا ہے۔بیرسٹر علی ظفر

بیرسٹر علی ظفر کی سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو

آج بنچ تشکیل کرنے کے لئے کمیٹی کی میٹنگ ہوئی۔بیرسٹر علی ظفر

اطلاع ملی کے جسٹس منصور علی شاہ کمیٹی میں نہیں بیٹھے،بیرسٹر علی ظفر

اس کمیٹی نے 5 رکنی بینچ تشکیل دیا اور سماعت ہوئی۔بیرسٹر علی ظفر

آج کے بنچ میں جسٹس منیب اختر نہیں تھے،بیرسٹر علی ظفر

آج جس بنچ نے سماعت کی وہ غیر آئینی ہے۔بیرسٹر علی ظفر

جب تک جسٹس منصور علی شاہ بنچ تشکیل کرنے والی کمیٹی کا حصہ نہیں،یہ بنچ قبول نہیں ہے،بنچ جسٹس منیب اختر کے بغیر سماعت نہیں کرسکتا،بیرسٹر علی ظفر

ملک میں آئینی کرائسس کے ساتھ عدالتی کرائسس بھی پیدا ہوگیا ہے۔بیرسٹر علی ظفر

پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو بھی کافی تحفظات ہیں۔بیرسٹر علی ظفر

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کام آئین و وکلا کے لئے کھڑا ہوا ہونا ہے۔بیرسٹر علی ظفر

آرٹیکل 63 اے کے ریویو کے لئے بار ایسوسی ایشن نے نظر ثانی فائل کی، بیرسٹر علی ظفر

وہ کہ رہے ہیں کہ سیاست میں لوٹا کریسی واپس لائی جائے،بیرسٹر علی ظفر

اس سب سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔بیرسٹر علی ظفر

جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں پہلا کرائسس ہوا تھا،بیرسٹر علی ظفر

اس سب پر فل کورٹ ہونا چاہیے،بیرسٹر علی ظفر

جس چیز کا آپ فیصلہ کرنے جا رہے ہیں اس سے آپ کو فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے،بیرسٹر علی ظفر

کل آئینی بحث میں آئین اور قانون پر بات کروں گا،بیرسٹر علی ظفر

کسی کی ذات کی جانب بات نہیں کرونگا،بیرسٹر علی ظفر

جب بھی عدالت میں پیش ہوئے جج کو دیکھے بغیر بحث کی۔بیرسٹر علی ظفر

بانی چیئرمین کئی بار اعتراض کر چکے ہیں،بیرسٹر علی ظفر

کسی جج ہر اعتراض ہو تو اس کی مرضی ہے کہ خود کو بنچ سے الگ کرے یا نہیں،بیرسٹر علی ظفر

آج بالکل یک طرفہ بحث ہورہی تھی،بیرسٹر علی ظفر

فیصلہ کا دفاع کرنے کے لئے کوئی جج موجود نہ تھا کہ ججمنٹ میں کیا لکھا ہے۔بیرسٹر علی ظفر

فیصلہ آئین کی ایک شق ہے جس میں مکمل انصاف کی بات ہے،بیرسٹر علی ظفر

عدالت نے اختیار استعمال کیا اس سے اتفاق کرنا یا نا کرنا مرضی ہے،بیرسٹر علی ظفر

جب تک فیصلہ موجود ہے الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اس پر عملدرآمد کرنا۔بیرسٹر علی ظفر