سپریم کورٹ کا سزائے موت کے قیدیوں کی حالت زار سے متعلق تحریری فیصلہ جاری ،، لکھا کہ سزائے موت کا مطلب یہ نہیں کہ مجرم کیساتھ غیر انسانی سلوک کیا جائے، ڈیتھ سیل کے حالات دیگر قیدیوں کی نسبت بدترین ہیں، سزائے موت کے مجرمان کیساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے دوہرے قتل کے مجرم غلام شبیر کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا VO 9 صفحات پر مشتمل فیصلہ 34 سال سے قید غلام شبیر کے کیس مین جسٹس جمال خان مندوخیل نے تحریر کیا۔ فیصلے مین کہا گیا کہ ڈیتھ سیل کے قیدیوں کے بنیادی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا، سزائے موت کے مجرمان کی پرائیویسی کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا، سزائے موت کے تمام مجرمان ایک ہی واش روم استعمال کرتے ہیں، سزائے موت کے مجرم کا سیل 9×12 کا رکھا جاتا ہے، سزائے موت کے مجرم کو دن میں صرف ایک گھنٹہ باہر نکلنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ڈیتھ سیل میں مجرم کو تنہا اور کڑی نگرانی میں رکھا جاتا ہے، اقوام متحدہ نے قیدیوں کے حقوق سے متعلق نیلسن مینڈیلا رولز بنا رکھے ہیں۔ پاکستان بھی اقوام متحدہ کا رکن ہے، پاکستان کے جیل قوانین فرسودہ ہوچکے جن پر حکومت نے بھی توجہ نہیں دی، حکومت کو سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق فوری اقدامات کرنے چاہیں، مجرم عمر قید سے زیادہ سزا کاٹ چکا ہے، فیصلے کی کاپی سیکرٹری داخلہ،صوبائی چیف سیکرٹریز سمیت تمام سرکاری لا افسران کو بھی ارسال کی گیی ہے