بدققسمتی سے میری عمران خان صاحب تک رسائی نہیں ہے۔ میں نے پریس کانفرنس نہیں کی اور نا ہی کوئئی ڈیل کی لہازا میری نقلو حرکت پر بہت سختی ہے اور میں اڈیالہ نہیں جا سکتا۔ پنجاب کی تنظیم میں بہت سارے ایسے فیصلے ہوئے جن پر نا تو میری رائے شامل تھی اور نا ہی رضامندی۔ ان میں اکثر فیصلے ایسے بھی تھے جن پر میرٹ کی بجائے لابنگ اور عمران خان تک محدود رسائی اور یک طرفہ معلومات پہنجائی گئیں۔
عمران خان کی آمریت کے خلاف پنجاب کے صدر حماد اظہر مستعفی ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا
مثلاً کافی عرصے سے لابنگ جاری تھی کی لاہور کے صدر چوہدری اصغر کو بدلا جائے۔ آج وہ کامیاب ہو گئے اور خان صاحب کو غلط حقائق دے کر ہدایت حاصل کر لی۔ چوہدری اصغر کا قصور یہ کے وہ دو ماہ قید میں رہے، فارم 45 پر نوازشریف کے حلقے سے الیکشن جیتے اور 3 ماہ پہلے وہ لاہور کے صدر منتخب ہوئے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کے تین ماہ جو کام انھوں نے کیا اور جس طرح فرنٹ سے لیڈ کیا وہ پہلے لاہور کے کسی صدر نے نہیں کیا۔ فلیش احتجاج، ورکر کنونشن ، پریس کلب کے باہر بڑا احتجاج اور 13 اگست کی لاہور میں کامیاب ریلیاں میں ان کا کلیدی کردار تھا۔ دو دفعہ ان کی اولاد کو جیل میں بھی ڈالا گیا۔ لیکن خان صاحب کو ان کے مخالف ان کی صدر نامزد ہونے کے ہفتے بعد سے ہی کان بھرنا شروع ہو گئے تھے۔ پارٹی کی قیادت بھی میرے ساتھ متفق ہے کے یہ فیصلہ اور ایسے بہت سے فیصلے صرف اور صرف خان صاحب تک محدود رسائی کا نتیجے میں لئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے معاملات ہیں جہاں واضح طور پر زیادتی ہوئی ، غلط فیصلے کروائے گئے اور کچھ ریجنز میں ہمارے رہنما بہت پریشان ہیں لیکن خان صاحب تک اطلاع نہیں۔
اس صورتحال میں میرے قلم سے یا میری پنجاب کی صدرات کے دوران میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کے میں میرٹ کا پامال کروں اور وہ لوگ جو پرفارم بھی کر رہے ہیں اور قربانیاں بھی رقم کر رہے ہیں ان کو صرف اس لئے denotify کر دوں گے ان کی آواز خان صاحب تک پہنچ نہیں سکتی۔ میں نے پہلے بھی استعفی اسی وجہ سے دیا تھا کے پارٹی چیرمیں سے رسائی کے بغیر معاملات کسی کے لئے بھی چلانا ممکن نہیں۔ ایسے صورت میں مفاد پرست اس رابطے کے فقدان کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بڑی تنظیمی ذمے داری صرف ان لوگوں کے پاس ہونی چاہیے جن کی پارٹی لیڈر تک رسائی ہو تا کے وہ پارٹی چیرمین تک پوری بات پہنچا سکیں۔ لہازا میں آج سے پنجاب کی صدارت کا چارج چھوڑ رہا ہوں۔ عمران خان کا ایک کارکن تھا اور رہوں گا انشاللہ۔