حالیہ بھارتی انتخابات میں بی جے پی کی ظالمانہ پالیسیوں کو مسترد کیا گیا ہے، علی رضا سید


چیئرمین کشمیرکونسل ای یو علی رضا سید نے کہا ہے کہ بھارت کی پارلیمنٹ کے حالیہ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ظالمانہ پالیسیوں اور انتہاپسندانہ رویے کو مسترد کیا گیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں بھارتی ایوان زیریں ’’لوک سبھا‘‘ کے حالیہ انتخابات کے حیران کن نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی عوام کے لیے نریندرا مودی کی سرپرستی میں حکمران جماعت بی جے پی کی متعصبانہ اور انتہاپسندانہ سیاست ہرگز قابل قبول نہیں۔
علی رضا سید نے خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں انتخابی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ جس طرح ۲۰۱۹ء میں مودی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت سے محروم کرنے کی کوشش کی جس کا وعدہ بھارت نے ان سے کئی دہائیاں پہلے کررکھا تھا، اسی طرح انتخابات میں کشمیری عوام نے بھارتی عوام کی طرح مودی کی غیرمنصفانہ اور غیرجمہوری پالیسیوں اور متعصبانہ رویے کو مسترد کیا ہے۔
چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے کہاکہ اگرچہ بھارتی آئین کے تحت جموں و کشمیر میں انتخابات بین الاقوامی زیرنگرانی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے مترادف نہیں لیکن یہ بات بہت اہم ہے کہ جدید ہندوستان کے بانیوں بالخصوص جواہر لال نہرو نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دے کر کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ کیا تھا۔
کشمیریوں سے وعدہ پورا کرنا تو دور کی بات ہے، مودی حکومت نے پانچ سال قبل بھارتی آئین میں ترمیم کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی سے متعلق آئین کی شقوں ۳۷۰ اور ۳۵ اے کو ہی ختم کردیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد کشمیری عوام مودی حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کا براہ راست نشانہ بنے اور کشمیریوں پر سخت پابندیاں لگائی گئیں۔ اس کے علاوہ، مقبوضہ خطے کو تین حصوں میں تقسیم کرکے نئی دہلی کی مرکزی حکومت نے اپنے براہ راست کنٹرول میں لے لیا تھا۔
چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے کہاکہ مودی حکومت نے نہ صرف جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کی دفعات کو ختم کیا، بلکہ ریاست کے ڈومیسائل کے متعلق قوانین میں بھی تبدیلی کی تاکہ جموں و کشمیر میں غیرکشمیریوں کو آباد کرکے اس متنازعہ خطے کی آبادی کا تناسب تبدیل کیا جاسکے۔
لوک سبھا کے انتخابات کے نتائج کے مطابق، مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کو یکسر مسترد کیا گیا ہے اور مودی حکومت کے مخالفین کو کامیابی ملی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے نہ صرف بے جے پی کو مسترد کیا ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے وہاں بین الاقوامی نگرانی میں استصواب رائے کرائے جس کا اس نے کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا۔
کشمیری عوام یہ بھی چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے مودی حکومت کی طرف سے شروع کردہ اقدامات کو فوری طور پر روکا جائے اور ڈومیسائل سے متعلق پرانے قوانین کو بحال کیا جائے۔
انہوں نے کہاکہ مودی حکومت کے دوران جموں و کشمیر کے علاوہ، بھارت میں رہنے والی اقلیتیوں کو بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اسی وجہ سے بے جے پی کو کئی بھارتی ریاستوں میں بھی شکست ہوئی ہے جن میں اترپردیش، مہاراشٹر، مغربی بنگال، تامل ناڈوک، کیرالہ، پنجاب، منی پور اور چندی گڑھ بھی شامل ہیں۔
حتیٰ کہ بھارتی عوام نے بے جے پی کو ایودھیا شہر میں بھی شکست دی جہاں اس پارٹی نے لوگوں کو بابری مسجد گرانے کے لیے اکسایا اور وہاں اس کی جگہ رام مندر بنوایا۔
علی رضا سید نے بی جے پی کی غیرجمہوری اور متعصبانہ سیاست کے خلاف کھڑے ہونے والے بھارت کے تمام سیاسی و سماجی حلقوں بشمول سول سوسائٹی اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ بھارتی وعدے کے مطابق جموں و کشمیر کے لوگوں کو حق خودارادیت دلوانے کی کوشش کریں تاکہ کشمیری آزادانہ طور پر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔