اطہر من اللہ کی سازش ناکام عدت میں نکاح کے مجرم عمران خان کو سپریم کورٹ کی ذریعے سے ٹیلی ویژن پر لائیو سے سپریم کورٹ کے ججوں کا انکار


سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کی سماعت، بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش،سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت کی کیس کی سماعت لائیو دکھانے کی درخواست مسترد کردی، عدالت نے وکیل خواجہ حارث کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت دے دی ،


چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی، بانی پی ٹی آئی بذریعہ ویڈیو لنک اڈیالہ جیل سے عدالت میں پیش ہوئے،ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے کہا یہ مقدمہ عوامی مفاد اور دلچسپی کا ہے لائیو اسٹریمنگ کی جائے، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے یہ ٹیکنیکل کیس ہے اس میں عوامی مفاد کا معاملہ نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے، عدالت کی جانب سے یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ عدالت آزاد اور غیر جانبدار نہیں ہے، مقدمہ پہلے لائیو دکھایا جاتا تھا تو اب بھی لائیو ہونا چاہیے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہم نے بانی پی ٹی آئی کو صرف ویڈیو لنک کی سہولت دی تھی براہِ راست نشریات کی نہیں،کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا،وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے کیس کی براہ راست کوریج کی درخواست مسترد کردی،عدالت نے فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا، جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اختلاف کیا

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہمیں سابق وزیراعظم اور حکومت سے بھی گلہ ہے،جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو مخالفین پر مقدمات بنائےجاتے ہیں،پھر وہی لوگ جب حکومت میں آتے ہیں تو دوسرے لوگ نیب کی زد میں آجاتے ہیں، نیب قانون ان لوگوں پر لاگو ہوتا رہاجوحکومت سےباہر رہے، پارلیمنٹ اپنے مسائل خود حل کیوں نہیں کرتا،سپریم کورٹ میں ایسے مقدمات کیوں لائے جاتے ہیں،میں اپنی بات کرتا ہوں باقیوں کا مجھے پتہ نہیں میں ٹی وی،سوشل میڈیا دیکھتا اور اخبارات پڑھتا ہوں،وزیراعظم نے کالی بھیڑیں کہا تھا، فیصلہ پسند آئے تو جج ٹھیک، پسند نہ آئے تو جج کالی بھیڑیں بن جاتے ہیں،اٹارنی جنرل نے جواب دیا یہ الفاظ موجود ججز کےلئے استعمال نہیں کئے گئے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا نیب ترامیم کیسے آئین سے متصادم تھیں وجوہات کیا بتائیں گئیں؟ قانون میں طے کردہ کرپشن کی حد سےکم کیسز دیگر عدالتی فورمز پر چلانے کا زکر ہے،جسٹس جمال مندوخیل نےکہا پارلیمنٹ سزا کم رکھے یا زیادہ خود فیصلہ کرے یہ اس کا کام ہے،سپریم کورٹ صرف قانون کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے،

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم سے مجرموں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیا کچھ لوگوں کی سزائیں نیب ترامیم کے بعد ختم نہیں ہوئیں؟ کیا نیب سیکشن 9 اے پانچ میں تبدیلی کرکے میاں نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی گئی؟ میاں نواز شریف کا کیس اثاثوں کا تھا جس میں بار ثبوت والی شق تبدیل کی گئی کرپشن کی حد کا اصول عدلیہ کیسے طے کرسکتی ہے، اقلیتی رائے میں کہا گیا ریٹائرڈ ججز اور ریٹائرڈ جرنیلوں کو نیب قانون سے استثنا نہیں ملنا چاہئے، کسی جج کو نیب قانون سے کیسے استثنا دیا جاسکتا ہے، ہم ججز مقدس گائے کیوں ہیں، کسی کو بھی قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہئے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سروس آف پاکستان کی تعریف میں ججز نہیں آتے، ججز آئینی عہدے ہیں،

دوران سماعت بانی پی ٹی آئی اور چیف جسٹس کے درمیان پہلا مکالمہ ہوا،چیف جسٹس نے سوال کیا خان صاحب آپ خود دلائل دینا چاہیں گے یا خواجہ حارث پر انحصار کرینگے؟بانی پی ٹی آئی نے کہا میں خود دوں گا اور 30 منٹ میں ختم کروں گا،میری جماعت گزشتہ ایک سال سے ٹارگٹ ہورہی ہے، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہماری درخواست ہے 9 مئی پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا کیس ہے ایک اور اہم کیس جس میں تاریخی ڈاکہ ڈالا گیا وہ 8 فروری کا ہے مہربانی فرما کر ان مقدمات کو سماعت کیلئے مقرر کردیں،مجھے وکلا سے نہیں ملنے دیا جارہا، تیاری کرنی ہوتی ہے، مواد بھی نہیں اور یہاں لائبریری بھی نہیں، میں قید تنہائی میں ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا یہ کیس نیب کا ہے اس پر بات کریں، آپ کو مواد بھی فراہم کیا جائے گا اور وکلاء سے ملاقات بھی ہوگی،اگر آپ قانونی ٹیم کی خدمات لینگے تو پھر آپ کو نہیں سنا جائے گا،بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کسی قانونی شخص سے معاونت تو ضروری ہے تیاری کیلئے، خواجہ حارث اور ایک دو اور وکلاء سے ملنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان مقدمات میں آپ کے وکیل کون ہیں؟ بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا حامد خان میرے وکیل ہیں،چیف جسٹس نے کہا حامد خان کو معلوم ہے کیسز کیسے جلدی مقرر کرائے جاتے ہیں، آج کیس نیب ترامیم کے حوالے سے ہے،بانی پی ٹی آئی نے کہا یہ ملک کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔