Program : Azad-Cast
Anchor: Maleeha Khan
Guest: Khurram Hameed Rokhri (IPP), Hassan Ayub (Analyst)
ملیحہ خان : اسلام علیکم ناظرین پروگرام آزاد کاسٹ کے ساتھ میں ہوں ملیحہ خان اور میرے ساتھ اسٹوڈیوز میں آج بڑی ہی امپورٹنٹ لوگ موجود ہیں سب سے پہلے میں بتاؤں گی میرے ساتھ اسٹوڈیوز میں موجود ہیں خرم حمید روکھڑی صاحب جو کہ میجر ریٹائرڈ ہیں بیسیکلی اور پہلے وہ پاکستان تحریک انصاف کے خاص رہنما ہوا کرتے تھے لیکن آج کل جو ہیں وہ استحکام پارٹی کے ساتھ ہوتے ہیں بہت شکریہ ہمیں ٹائم دینے کے لئے اور اس کے علاوہ ہمارے ساتھ اسٹوڈیوز میں موجود ہیں حسن ایوب صاحب بہت شکریہ آپ کا بھی، بہت شکریہ آپ لوگوں کا، تو روکھڑی صاحب آپ سے اسٹارٹ کرتےہیں سب سے پہلے تو آپ مجھے یہ بتائیں جیسے آج کل یہ جو حالات و واقعات چل رہے ہیں جنرل فیض حمید کے آج سے پہلے اگر دیکھا جائے تو ہسٹری میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو اٹھا کے اور کورٹ مارشل کی طرف لے کے جائے جارہا ہے تو یہ سب، اس سب کو آپ کیسے دیکھ رہے ہیں؟ آپ کے خیال میں یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟
خرم روکھڑی : اچھا ملیحہ ،ہسٹری میں یہ ہوا ہے۔
ملیحہ خان : اچھا
خرم روکھڑی : یعنی میں یہ کہوں گا کہ فوج شاید واحد ایسا آپ کے پاس سسٹم ہے جس میں سزا اور جزا ہے لیکن فوج یا افواج پاکستان ان چیزوں کو پبلک نہیں کرتے ہیں اور ان کے سسٹم چل رہا ہے لیکن یہ والا جو ہے کیریکٹر یہ ٹوٹلی ڈیفرنٹ ہے
ملیحہ خان : اچھا سو ڈفرنٹ کیسے؟
خرم روکھڑی : یعنی اس کو تمام جو تاریخ ہے پاکستان کی پرانی اس میں سے اس کریکٹر کو آپ ٹوٹلی ڈیفرنٹ دیکھیں گے کیونکہ یہ وہ ایک نیکسز تھا یہ وہ ایک جیسے کہیں نیٹورک تھا کہ وہ ڈیویلپ ہوا اور جس نے ملک کے نقصان کے بعد ان کو یہ سمجھ آئی کہ اس ملک کا جو دفاع ہے کوئی بھی کسی صورت میں جب نقصان پر آئے گا تو افواج پاکستان ایک ایسا ادارہ موجود ہے جو انٹیکٹ ہے باقی چیزیں تو اڑ گئیں تو یہ اس کو خود بخود اس کے دفاع میں آنا شروع ہو جائے گا تو انہوں نے جو بھی پلانرز تھے اور پلاننگ تو بہت ڈیپ پلاننگ تھی انہوں نے جب یہ نیکسز بنایا تو he was the main character جو فیض حمید کا تھا۔
ملیحہ خان : اوکے اوکے۔
خرم روکھڑی : اور سسٹم کے اندر رہ کے اس مقام پر پہنچ کر جتنا نقصان یہ ایک شخص کر سکتا تھا اس نے کیا۔
حسن ایوب: ادارے کا یا ملک کا؟
خرم روکھڑی : ملک کا ، ادارے کا جو نقصان ہے وہ ملک کا نقصان ہے حسن کیوں، میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ ہم ایک اسٹرانگ پولیٹیکل گورنمنٹ ہیں ہمارا سروائیول ایک بہت مستحکم فوج کے علاوہ ہے ہی نہیں یعنی ہم ایک ایسے ہیلنگ۔۔
حسن ایوب : عرب سپرنگ ہمارے سامنے کی مثال ہے آپ دیکھ لیں کہ کیسے ہوا کس طریقے سے پھر وہ ملکوں کے اوپر کتنی جو ہے برا وقت آیا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں جب عرب سپرنگ جیسی سازش کامیاب اس طرح نہیں ہو سکی کہ یہاں کی فوج مضبوط تھی۔
خرم روکھڑی : نہیں اس سے زیادہ ڈینجرس سازش تھی یہ
حسن ایوب : سازش تو آج بھی جا رہی ہے
خرم روکھڑی : ہاں یہ والی جو سازش ان کا شکار ہے یہ ایک زیادہ ڈینجرس سازش تھی اس کے اندر انہوں نے ہر واک آف لائف سے انہوں نے they knew it کہ انہوں نے ہر واک آف لائف سے چاہے بزنس مین ہے چاہے میڈیا ہے چاہے جوڈیشری ہے انہوں نے ہر جگہ پر اپنے پنجے بڑے مضبوطی سے گاڑے پروکسیز اور انہوں نے ایک کنگز کانسل ڈیولپ کی
حسن ایوب : اچھا
خرم روکھڑی : اور وہ کنگز کانسل جنرل پالٹیشنز ہیں جو پھر رہے ہیں پارٹیز میں بھائی صاحبان کو مثال ہے انہوں کو کچھ بھی نہیں پتا تھا۔
حسن ایوب : پی ٹی آئی کی بات کررہے ہیں آپ؟
خرم روکھڑی : جی،پی ٹی آئی انہوں کو کچھ بھی نہیں پتا تھا کہ اصل کہانی کیا ہے۔
حسن ایوب : ٹھیک ہوگیا:
خرم روکھڑی : یہ فیسز تھے حلقہ کے پیچھے مرے پڑے ہیں ۔
حسن ایوب : تھوڑی ذرا روشنی ڈالیں نا اس پر ۔
خرم روکھڑی : دیکھیں نا یہ وہ لوگ تھے جوکہ حلقہ کی پولیٹکس کررہے تھے اب دیکھیں نا ۔۔
حسن ایوب : کون کون تھا کنگز کونسل کے اندر ؟
خرم روکھڑی : کنگز کانسل کے اندر ابھی جو مین نام آئے ہیں اس کنگز کانسل میں ایک اور چیز کو اہم ہے سمجھنا ابھی آپ دیکھیں گے میڈیا کے اوپر ایک بات ہو رہی ہے وہ کہیں گے کہ جی فیض حمید اور بشرا یہ کر رہے تھے ساری چیزیں اور یہ جو چیز بتاتے تھے عمران کو تو he would do that اچھا ایک اور پرسپشن کریٹ کر رہا ہے کہ عمران ان کے اتنے زیر اثر تھا اپنی بیوی کے وہ سمجھتا تھا یہ ٹھیک ہے اور کسی کورنٹ سے اس کو پھر معصوم ثابت کرنے کے کوشش کی جاتی ہے اور جس کا وہ ہمیشہ فائدہ لیتا ہے کہ جی میں تو انہوں نے کیا حسن نے کیا کام ۔
حسن ایوب : مطلب کر کے سارا کام تو یہ معصوم بنتے ہیں ۔
خرم روکھڑی : ہاں، اصل میں اس کنگز کانسل کا مین جو چئیر تھی وہ شروع سے عمران کے پاس تھی دوسری چئیر اس کی بشرا کے پاس تیسری چئیر اس کی جو آپ اس کے سامنے بیٹھتا تھا وہ فیض حمید کے پاس تھی چوتھی چئیر اس کی ثاقب نثار کے پاس تھی یہ ہے دوہزار اٹھارہ کے کچھ عرصہ پہلے یعنی بہت عرصہ پہلے نہیں دوہزار اٹھارہ سے پانچ چھ مہینے پہلے
حسن ایوب : سترہ کے اینڈ میں
خرم روکھڑی : سترہ کے اینڈ میں اور دوہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد الیکشن سے پہلے یہ ایک کانسل ہے جس نے بیٹھ کے ان کے ہوں گے کسی نے کہاں سے پلانٹ کیا پھر ان لوگوں کی ایک اور عادت ہوتی ہے کہ جو بہت زیادہ فرشنیٹیس یا جو بہت زیادہ خواہشات تھیں اور یہ جن کی بہت شدید ہوتی اور جو وقت کے ساتھ کھیلتے they play with the time اور وہ آپ کا حق ماریں گے ، آپ کا حق ماریں گے اور جنہیں وقت کے ساتھ کھلتے ہیں وہ اپنے آپ کو فکس کرتے ہیں سازشوں کے تھرو اور دو نمبر طریقوں کے تھرو تو یہ تمام وہ تھے جن کی بہت زیادہ خواہشات تھیں اور یہ ایک اسٹیک پہ آکے اکٹھے ہوگئے اور ہم پیچھے والے پہ نہیں جاتے ہم اسے لیتے ہیں ۔
حسن ایوب : ہم انہی چار کو لیتے ہیں ٹرائکا جو ہے۔
خرم روکھڑی : ہم اسے لیتے ہیں 2018 کی الیکشن سے پہلے یہ لوگ آکے بیٹھتے ہیں اور ان کے درمیان ہر چیز کلیئر ہوتی ہے پھر ان کی ہر ایک کی اپنی اپنی ڈیوٹی تھی میں اکثر یہ کہہ چکا ہوں آج آپ سپریم کورٹ کے اندر چلے جائیں ثاقب نثار کے دور کی آپ بھرتیاں اٹھائیں اور آپ دیکھیں۔۔
حسن ایوب : کتنے زیادہ لوگ ٹیپٹیشن پر سپریم کورٹ میں لے کر آئے لوگوں کو جناح پہاں پر وہ نے بسیکلی اپنی پوری مناؤپلی بنالی تھی۔
خرم روکھڑی : مناؤپلی بنالی تھی اور مناؤپلی کیسے بنتی ہے مناؤپلی ایسے بنتی ہے کہ یہ ایک دوسرے کو فیورز دیتے تھے اور فیورز یہ اتنے زیادہ دیتے تھے کہ یہ ایک دوسرے پر اتنے ڈیپنڈنٹ تھے ایک میرا ڈرائیور ہے اس نے ایک بڑی زبردست بات اس نے کہا دیکھیں نا سر کوئی بندہ جو تیس سال کی لیز لے کر آئے اور اس کا پلان ہوکہ میں یہاں سے تیس سال کے لیے کوئلہ نکالوں گا تو وہ آٹھ سال بعد یا چار سال بعد ملے تو وہ کہتا نہیں میرے تیس سال ہیں انہوں نے they made a plan.
حسن ایوب : Of third years.
خرم روکھڑی : انہوں نے پلان بنایا اس کے لیے انہوں نے پیسہ کمایا جو آپ سوموٹو ایکشن دیکھیں گے جس بڑے انڈسٹریلسٹ کے اوپر ایکشن ہوگا آپ کو یہ نیکسز نظر آئے گا
حسن ایوب : صحیح
خرم روکھڑی : اور یہ ان سے بھی پیسہ لیں گے اور انہوں نے واقعی کھربو روپیہ بنایا اور یہ اتنے شور تھے اس پیسے کی بنیاد پر اور جو ان کا نیٹورک تھا اس کی بنیاد پر ان کی باڈی لینگوچ اتنی مضبوط تھی کہ they were thinking we will come back.
حسن ایوب : اچھا، آپ کی بات بڑی مطلب اب میں کوئی اپنا ایک میموری بیک کلاش آ رہی ہے مجھے دیکھیں دو سوموٹو تو میرے نظر میں آ رہی ہے ایک تو انڈسٹریلسٹ کا آپ نے زکر کیا تو کٹاس راج مندر والا۔
خرم روکھڑی : دیکھ لیں آپ۔
حسن ایوب : پانی تالاب خسک ہوگیا اورت وہاں سے معاملہ چلا گیا پھر کہاں سے، کہاں سے،کہاں ہوتا گیا تمام انڈسٹری کو بلالیا گیا،جتنے سمنٹ کے پلانٹس لگے ہوئے تھے اور ایریا کونسا تھا چکوال۔
خرم روکھڑی : دیکھ لیں آپ۔
حسن ایوب : اچھا ایک تو وہ،اور دوسرا ٹاپ سٹی کیس ۔ ہاہاہاہاہا
خرم روکھڑی : ٹاپ سٹی یس آپ کے سامنے ہے۔
حسن ایوب : ٹاپ سٹی والے معاملے میں انکوائری کے آرڈرکیا انہوں نے ایف آئی کو اور آخری دن جاتے ہوئے جنرل فیض حمید نہ پتا نہیں اس میں کوئی رول پلے کیا ہا نہیں لیکن ثاقب نثار صاحب اس جو جو اس کی فائل تھی اس کو فائل کرگئے۔
خرم روکھڑی : جی اس ہی طرح ہے۔
حسن ایوب : اس کیس کو فائل کرگئے۔
خرم روکھڑی : جی ایسا ہی ہے۔
حسن ایوب : تو یہ ہوا، وہ بیسیکلی آنر شپ ڈسپیوٹ تھا جو ٹاپ سٹی والا معاملہ تھا یہ اس کے بعد پھر 2017 میں دوبارہ انہوں نے جوہے وہ ریڈ کیا،جعنی 2018 میں بند ہوئی تھی ۔
خرم روکھڑی : آپ جس کو بھی چلے جائیں،میں اپنے رسک پہ یہ کرونگا دیکھیں گر آپ کسی مقام پر جب آپ ہوتے ہیں نا
حسن ایوب : تھوڑا سا ٹائم کا فرق آرہا ہے۔
خرم روکھڑی : نہیں آئے گا، کسی بھی آپ معاملات پہ تو آپ کو اصل معاملات کا پتہ ہوتا ہے، یہاں یہ ایشو ہے، اس کا یہ ایشو ہے تو ان ایشوز کو لاکر یہ تو چیزیں چلتی ہیں، independent capacity کی corruption پوری دنیا میں چلتی ہے کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے دنیا میں 100 پرسنٹ وہ اونسٹی پر ہو،ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ یار 80 پرسنٹ کام کرو اور 20 پرسنٹ میرے یار اس کو اگر چل بھی رہی ہے تو چلتی رہے لیکن یہاں پر game کچھ اور یہ جو کچھ بھی ہو رہا تھا یہ جتنا کچھ بھی ہو رہا تھا اس میں ایک extreme greed of power ہے اور اس ملک کے اوپر اگلا ایک plan تھا greater plan تھا اور میں اس میں مجھے کوئی نہیں ہے کہ یہ تمام لوگ کہیں نہ کہیں باہر بھی linked ہو چکے تھے۔
حسن ایوب : باہر لنک ہوچکے تھے مراد ؟
خرم روکھڑی : میں میں میں ایک مثال ہے یہ جو inner council ہے اس میں ایک اور character ہے جو پیرنی کے کرسی اٹھا کے اس کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے اس کا نام ہے گوگی۔
حسن ایوب : فرح گوگی
خرم روکھڑی : گوگی، یعنی ہر اس کنگ کانسل میں کرسیاں رکھنے والے کے پیچھے ایک آدمی کھڑا ہوتا ہے کہ کرسی کس کی کرسی کون پکڑےگا۔ آپ کو اگر انڈیین کنکشن نہ ثابت ہو فرح گوگی کا ۔ آپ مجھے مجرم قرار دےدیجئے گا۔
حسن ایوب : اچھا،انڈین کنکشن ؟
خرم روکھڑی : انڈین کنکشن نا ثابت ہو، آپ اس ہی کنگ کونسل کا، اسی king council کے اندر آپ کے پاس پھر اس king council پیچھے ان کے ہر کسی کے پاس پیچھے لوگ ہیں کسی کی second wave ہے، third wave ہےچار ہے۔
حسن ایوب : ٹھیک ہے
خرم روکھڑی : آپ کو چاہے عادل راجہ ہے چاہے آپ کو یہ جو باہر بیٹھ ہو ہے جبران الیاس چاہے آپ کو یہاں پر کوئی ایک local judge ایک عام judiciary کے اندر بیٹھاہواہے وہ چاہے کسی کی بیوی آپ کو یہ interconnected نظر آئے گی اور یہ پورا monitor کر کے یہ کام چل رہا تھا۔
ملیحہ : سسٹمیٹک وے میں۔
خرم روکھڑی : سسٹمیٹک وے میں،سوشل میڈیا،بیروکریسی کے اندر انہوں نے ایک سسٹم کو سبوتاژ کر کے ان کا ایک مقصد تھا کہ اس پاکستان کا جو نیوکلیئر ایسٹ ہے آپ کا اس کو کمپروائز کیا 100% نیوکلیئر ایسٹ آپ کا کمپروائز کیا جائے اور آپ کے بلوچستان کو کیونکہ بلوچستان ۔
حسن : بڑی باتیں آپ بتا رہےہیں۔
خرم روکھڑی : یہ آئیں گی یہ آئیں گی، یہ ساری چیزیں improve ہوں گی وقت ایک ایسی چیز ہے آپ یاد کریں حسن، یہ چیختا تھا مارچ تک مجھے election دو۔
حسن ایوب : ہاں بار بار کہتا تھا ۔
خرم روکھڑی : کیوں ؟ کیوں مرتے تھے سارے؟
حسن ایوب : I DONT KNOW
خرم روکھڑی : اچھا اس میں ایک اور بھی دیکھئے گا یہ صرف یہ نہیں ہے کہ یہ پیرنی کو یہ جو لوگ کہتے ہیں جو فیض حمید انفارمیشن دے رہا تھا نہیں پیرنی has her own گروپ ہے جو black magic اس کا علاوہ وہ exist کرتا ہے وہ on ground exist کرتا ہے اس کے shadows ہیں dark life وہ اپنا کام کر رہی تھی یہ اپنا کام کر رہا تھا اور ان کا basic aim تھا پاکستان سے بلوچستان کو eliminate کرنا۔
حسن ایوب : استغفراللہ
خرم روکھڑی : اور اس پر انہوں نے بھرپور کام کیا اب یہ دیکھیں انہوں نے اپنے time کے اندر اس عمران نے کیا کیا اس نے at his own اس نے direct مذاکرات کیے with TTP thru faiz Hameed اور ان کو لیکس نے آکے پاکستان کے اندر بٹھا دیا اب آپ دیکھیں کہ کس جگہ پر انہوں نے اپنا influence نہیں چھوڑا اور ان seeds کا for their greater aim انہوں نے کونسا ایسا مقام ہے جس کو چھوڑا ہو پرو پاکستان جتنے ملک تھے اس چار سال میں کونسا ایسا ملک ہے جو۔۔
حسن ایوب : تعلقات سب سے خراب تھے۔
خرم روکھڑی : پرو پاکستان کے لیے ہمیشہ stand کرتا ہے جس کو انہوں نے پاکستان سے نا توڑاہو name one ۔
حسن ایوب : کوئی بھی نہیں ہے۔
خرم روکھڑی : چائنا ۔
حسن ایوب : friends of democratic Pakistan وہ تمام کے تمام وہ تو ناراض ہو گئے تھے۔
خرم روکھڑی : ساروں کو ناراض اس حد تک کیا کہ وہ واپس ہی نہ آئیں تو they had a different plan پھر کہتا ہوں کیونکہ اس ملک کے اندر انہوں نے پولیس تباہ کر دی انہوں نے بروکریسی آپ کی تباہ کی انہوں نے آپ کا education system تباہ کیا ایک healing system آپ کے پاس موجود تھا فوج وہ اس نے شروع کیا جیسے یہ vote of no confidence شروع ۔۔
حسن ایوب : وہ اس سے پہلے سر اس سے پہلے Mr.X Mr. Y نہیں میر صادق میر جعفر پھر Mr.X Mr.Y اور پھر dirty harry پھر اس نے کہا کہ اچھا یہ بتائیے گا مجھے یہ جو planning آپ بات کر رہے ہیں تو یہ 9th May پر ہم آتے ہیں کیونکہ جو ان کی گرفتاری ہے وہ in connection of 9th May اور پلس another 9th May جو ہمارے زرائع شروع سے بتا رہے ہیں کہ ایک اور 9th May کی تیاری کر رہے تھے اور ملک میں ایک قسم کی میوٹنی کی سازش تھی دوبارہ جنرل عاصم منیر کو پہلے بھی اٹھانا چاہ رہے تھے 9th May میں بھی اور دوبارہ بھی ان کا plan یہی تھا کہ جنرل عاصم منیر سے جان چھڑائی جائے اب یہ بتائیں کہ یہ 9th May پر پہلے رکتے ہیں پھر دوسری 9th May پلس پر آئیں گے 9th May پر دیکھیں کہ جتنے بھی آرمی کی جو تنصیبات تھیں ان کے اوپر اچانک سلمان ٹینیز جی 20 منٹ کے difference سے یا half an hour کے difference سے یہ پورے ملک میں سلمان ٹینیز جی کس طریقے سے attack ہو گیا ؟ کیا پی ٹی آئی کی capacity تھی اتنی ؟
خرم روکھڑی : نہیں، capacity بنایا جاتا ہے planning کی جاتی ہے،target دیئے جاتے ہیں اور zombies جب موجود ہوں zombies بھی create کیئے جاتے ہیں 9th May سے تھوڑا سا پیچھے چلے جائیں long march پر آجائیں ، میں یہ کہتا ہوں کہ ان کے دو target long march کے بعد آپ اس کی تمام body language دیکھلیں،
حسن ایوب : لاسٹ ائیر 25 مئی کی بات کررہے ہیں آپ ؟
خرم روکھڑی : لانگ مارچ کی۔
حسن ایوب : لانگ مارچ 25 مئی کی جو تھی؟
خرم روکھڑی : long march جو پشاور سے آئے تھے،زمان پارک والا نہیں، جو یہ نکل رہا ہے پشاور سے جس کے اندر یہ کہتا ہے کہ مجھے گولی لگی۔
حسن ایوب : اوکے اوکے اوکے اوکے اوکے ۔
خرم روکھڑی : آپ اس long march کو رکھیں dividing factor.
حسن ایوب : 2022 کی بات کررہے ہیں، ٹھیک ہوگیا۔
خرم روکھڑی : جی ہاں، آپ Long March سے ایسے ہاتھ کریں اور ایسے ہاتھ کریں long march سے پہلے یہ پوری develop کرتا ہے long march میں سے پہلے یہ نام بگاڑنا شروع کرتا ہے جلسے کرنا شروع کرتا ہے اور temperament بنانا شروع کرتا ہے incite کرنا provoke کرنا بچے تھیں 16 سال کے جو 18 سال کے اندر آئے ہوئے تھے اور یہ ہے جب vote of no confidence یہ باہر آتا ہے اور exactly شہباز گل کی گرفتاری کے بعد۔
حسن ایوب : جی ٹھیک ہے۔
خرم روکھڑی : اس سے پہلے تک کہانی اس کی اور ہے ننگا کر کے مارا ہر جگہ پر ایک فقرہ کہتا تھا کہ ننگا کر کے مارا ایک ایک چیز plan تھی اس اس جو long march ہے اس وقت تو جنرل عاصم منیر wasn’t the chief of army staff لیکن اس پورے گروپ کو یہ معلوم تھا۔
حسن ایوب : اکتوبر میں اسٹارٹ ہوا تھا غالبا، ستمبر یا اکتوبر میں لانگ مارچ ہوا تھا۔
خرم روکھڑی : یس،اس پورے گروپ کو یہ معلوم تھا اور ان کا target یہ تھا پھر اللہ تعالیٰ کی ایک مشیط ہے ان کا target تھا کہ کسی بھی صورت جنرل عاصم منیر کو chief of army staff نہیں بننے دیں جتنی آپ وہ moment دیکھیں گے اس کے اندر ان کا ایک target ہے کہ chief of army staff جنرل عاصم کو نہیں بننے دیں جو بھی لوگ۔
حسن ایوب : ایون کامران خان نے show کر دئے۔
خرم روکھڑی : ہاں۔
حسن ایوب : کامران خان نے اچھا کامران خان نے میں دیکھا بعد میں کہ وہ کیسا عجیب آدمی ہے کہ پہلے اس بندے نے جنرل عاصم کے خلاف تین show کی ہر روز کرتا تھا show وہ بھی میرے خیال سے جنرل فیض کے ساتھ رابطے میں تھا۔
خرم روکھڑی : آپ ان کے کس کے رابطے میں رابطہ ایک ہے ۔
حسن ایوب : اور ابھی he is working for Malik Riaz sb وہ ملک ریاض کے لئے آگیا ہے۔
خرم روکھڑی : اچھا اب ہم آجائیں ملک ریاض پہ۔
حسن ایوب : ملک ریاض کا اور جنرل فیض کا نیکسز جو ہے وہ تو سب کو معلوم ہے اور عمران کے تعلقات معلوم ہیں تو یہ جنرل فیض ، کامران خان۔
خرم روکھڑی : یس۔
حسن ایوب : اچھا یہ تمام کے تمام چین اس طرح بن رہی ہے ۔
خرم روکھڑی : 100 پرسنٹ بنتی ہے۔
حسن ایوب : عمران خان ملک ریاض کامران خان یہ تمام لوگ ۔۔
خرم روکھڑی : ملک ریاض کو انٹری ڈالتا ہے جنرل فیض لے کے جاتا ہے بنی جانا پہلی دفعہ اس سے پہلے تو عمران خان گالیاں نکالتا تھا۔
حسن ایوب : جی بلکل نکالتا تھا، ریاض ٹھیکے دار ریاض ٹھیکے دار کہتا تھا عمران خان ۔
خرم روکھڑی : اور بہت سارے پہلے دن وہ لے کے جاتا ہے اس کے بعد پھر اگلے سولہ دن لگاتار ہے ناکہ میں آیا ہوں آپ کے پاس تو میں پھر سال بعد آ رہا ہوں یا دو مہینے بعد آ رہا ہوں اگلے دن اگلے نیکسٹ سکسٹین ڈیز ڈیلی ملک ریاض وہاں پہ ہوتا تھا پھر کچھ دن بریک لگی ایک اور چیز انٹرسٹنگ ہے عمران صبح گیارہ بجے اٹھتا ہے بنی گالا سے اور ایگزیگٹ پانچ بجے واپس چلے جاتا ہے بنی گالا یہ اس کی پرائم منسٹر شپ کے چار سال 11 o’clock ہیلی کاپٹر پہ بیٹھ کے یہاں لینڈ کرنا پانچ بجے واپس پہنچ جانا۔
حسن ایوب : کیوں ؟
خرم روکھڑی : اس کے فورا بعد آپ آج اٹھا لیں ملک ریاض فیض حمید آپ کو ملیں گے وہاں پہ اس کے پاس بیٹھے ہوئے now they need money یہاں پہ دو قسم کے بزنس مین ہیں اس سارے بڑی گیم کے لیے they need people جن کے پاس پیسہ ہے اور جو بہت وہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم بادشاہ بنیں ان کو مل گئے بیگ سے لے کے ہیروں کے تحائف سے لے کے وہ ان کو ایک بہترین آدمی مل گیا اس کے بعد جو بڑے بڑے انڈسٹرلسٹ تھے اس سے ثاقب نثار کے ذریعے سوموٹو کرکے کھربوں روپے ویسے کمال لیے گئے تو یہ ایک اپنے آپ کو untouchables کی پوزیشن میں چلے گئے تھے کہ ہمیں کون پوچھ سکتا ہے۔
حسن ایوب : اور اس لیے روڈا کی اوپر آپ بڑا شور ڈالتے تھے عمران خان صاحب روڈا روڈا راوی اربن ڈویلپمنٹ جو اتھارٹی بنا رہے تھے۔۔
خرم روکھڑی : ایک ایک چیز بلیک ایک ایک فقرہ بلیک ایک ایک کپڑا بلیک ایک ایک جسٹر بلیک یعنی پوری ٹریننگ کر کے جیسے میں آ کے بیٹھوں میں نے یہ کرنے میں نے یہ کرنے لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے اچانک یہ وہ جی پھٹی قمیز پہن کے پھر رہا ہے ایک ایک چیز بلیک اور ماسٹر مائنڈز پھر کہتا ہوں صرف لوکلز نہیں تھے فیض کی ایک کوالٹی تھی کچھ لوگ حسن ایسے ہوتے ہیں ملیحہ کہ وہ سیچوایشن کو دیکھتے ہوئے نئی سیچوایشن ڈیولپ کرتے ہیں کچھ لوگوں کی کوالٹی ہوتی ہے یا وہ evil ہوتے ہیں یا وہ positive ہوتے ہیں مثال کے طور پر بنگلہ دیش کے اندر یہ حالات ہوئے آپ یقین جانیں کہ جیسے بنگلہ دیش کہ حالات ہوئے تو میں اپنی آنکھوں کو بتاؤں کہ میں کچھ وہ راتیں i was uncomfortable کیونکہ مجھے آئڈیا تھا کہ یہ اس وقت اس چیز کو they will play آج میں آپ کے شو میں کہہ رہا ہوں فیض حمید یہ جو موومنٹ یہ جو اسٹوڈنٹس کی نہیں کھڑی ہورہی تھی آپ کو اس کے پیچھے نہ ملے آپ مجھے جیل میں ڈال دیجئے پروب کریں ان کی دشمنی نہیں ہے کہ یہ کوئی وینڈکٹیو تو تھے ہی تھے، ان کی وہ اسٹیک پر پہنچ چکی تھی کہ یعنی ہم جو پلان کر رہے تھے ہم نے وہ اچیو کرنا Chief of Army staff یہ نہیں بن سکا عمران کی اتنی لانگ مارچ کی موومنٹ تھی لوگوں کو کہ جی میں یہ آزادی مارچ چھین کے لیں گے آزادی وغیرہ نہیں، وہ موومنٹ تھی ہی اس کو چیف بنانے کیلئے ، ان کو ڈیز کا پتا تھا ان کو ٹائمنگز کا پتہ تھا ان کو یہ پتہ تھا کہ کونسی سمری کیسے موو ہونی ہے اور یہ بیسیکلی لانگ مارچ پہ واپس آرہا ہوں حسن پہلے کوئسچن پہ یہ لانگ مارچ پہ لانا چاہتے تھے کنٹینر کھڑا کرنا چاہتے تھے ان فرنٹ آف پی سی۔
حسن ایوب : پی سی ۔۔ پنڈی ؟
خرم روکھڑی : یہ ڈراما تھا کہ ہم اسلام آرہے ہیں، پی سی پہ کھڑا کر کے ادھر سے کے پی سے بندے آئیں گے ادھر سے آئیں گے اور ہوگی لڑائی اور اس میں دو سو تین سو ایکسپیکٹڈ کے ہم بدتمیزی کرائیں گے بیچ میں گولی چلوائیں گے بچے ہیں نوجوان ہیں پتہ ہے اور لڑائی ہوگی جی ایچ کیو پہ حملہ کریں گے آگے سے گولی چل جائے گی اور دو ڈھائی سو لاشیں بکھریں گی اور پھر جب وہ ڈھائی سو لاشیں کوئی میاں والی جائے گا کوئی کوہاٹ جائے گا پھر وہاں جنازے ہوں گے تو it was a greater plan against Pakistan دو پلانز تھے اس کے جس وقت یہ نکلے ہیں ایک 9 مئی جو اس نے کیا کہ قوم کو اور فوج کو لڑانا ہے دوسرا پھر اس کے بعد انہوں نے الیکشن کی طرف بڑھناشروع کیا اور انہوں نے دو ہزار چوبیس یہ جو ہمارا الیکشن ہوا ہے ابھی لیٹسٹ انہوں نے اس کو بھی منیوپلیٹ کیا آج آپ پروب کریں گے ان کے بندے موجود تھے پریزائڈنگ آفیسز موجود تھے اور انہوں نے ایک بڑا کام کرایا پنجاب میں اور ان کا فوکس کیا تھا پنجاب میں آپ کو یاد ہوگا انہوں نے پنجاب میں ہماری جو انٹرن گورنمنٹ تھی اس کے دور میں انہوں نے استادوں کو کہا ہم اسکولوں کو کر رہے ہیں پرائیوٹائز کر رہے ہیں۔
حسن ایوب : اچھا
خرم روکھڑی : اور ایک تھریٹ کریئٹ کیا تمام استادوں نے جلوس نکالنا شروع کر دیے اور لاہور پہنچ گئے پھر جو کہتا ہوں بھئی محکمہ موجود ہے ہیل کرتا ہے انہوں نے اس چیز کو ہیل کیا اور ان کو واپس بھیجا اب یہ تمام وہ لوگ تھے جن کی ڈیوٹیز تھیں الیکشن میں۔
حسن ایوب : پیسے بھی چلے تھے؟
خرم روکھڑی : ہاہا، چلتا ہی پیسا ہے۔
حسن ایوب : آپ کے حلقے میں کیا ہوا؟
خرم روکھڑی : میں تو کیوں کہ ۔۔
حسن ایوب : فیض کا تو آپ سے بڑا پیار ہے ۔
خرم روکھڑی : بہت زیادہ میرے سے ۔۔
حسن ایوب : تو اس پیار کا کیا فائدہ ہوا آپ کو ؟
خرم روکھڑی : میرے سے اس کا اور اس کے جو دونوں کنگز کانسل ثاقب نثار کو تو میں نہیں کہہ سکتا ہوں کیونکہ مجھے وہ نہیں جانتا ہوگا لیکن باقی تین میرے سے واقعی بہت زیادہ پیار کرتے ہیں ہارا ہوا آدمی your family is a political family ہارا ہوا آدمی برا لگتا ہے اپنی شکست کو کہے کہ میں اس وجہ سے ہارا ہوں میں آج کلیم کرتا ہوں کہ میرا الیکشن ہے انہوں نے مینیوپلیٹ کیا، میں آج کلیم کرتا ہوں کہ ہمارے علاقے کے اندر اس نے تین کے ٹارگٹ لے کے آیا تھا فیض کے الفاظ ہیں اور اس کے عمران کے کہ اس کو کیونکہ i was the only one جو اسکے آگے کھڑا تھا، یہ تو سوچ نہیں سکتے تھے کہ کوئی کھڑا ہوگا میانوالی میں میں تو پہلا آدمی دو سال پہلے میں نے اس کے آگے شکایت کیا انہوں نے کہا اس کو ایسا سبق سکھاؤ۔
حسن ایوب : نشانے عبرت بنائیں۔
خرم روکھڑی : ہاں ، بلکل کہ آئندہ عمران کے آگے کھڑے ہونے کا کوئی سوچے ہی نا تھا اور عمران کا اتنا ووٹ بینک ڈلواؤ کہ لوگوں کے اوپر اس کی ایک دہشت تاری ہو جائے اور یہ فیض نے کیا درے سے ووٹ لائی درے سے انہوں نے درے سے انہوں نے ووٹ بنوائے انہوں نے ووٹ ڈالے۔
حسن ایوب : در آدم خیل؟
خرم روکھڑی : یس، درآدم خیل سے جعلی ووٹ، اور پی ٹی آئی یہ پہلے بھی کرتی رہی یہ کوئی پہلی دفعہ پی ٹی آئی نےنہیں کیا۔
حسن ایوب : اچھا،لوکل باڈیز الیکشن میں سنا تھا کہ کےپی والے۔
خرم روکھڑی : آپ کے پی کے اندر ادھر آپ کو گجرانوالا ادھر ادھر آپ بھیجیں گے یہ سارا پر پہنچاتے ہیں ان کا پورا ایک نیٹ ورک ہے جو ان کو الیکشن سے پہلے پہنچا دیتا ہے بھلیہ ووٹ ڈالنے جا رہی ہیں میں جا رہا ہوں یہ جا رہے ہیں بیس بیس ووٹ ڈال کے ڈالتی ہیں یہاں پہ کونسا کوئی ایسا سسٹم ہے کہ پوری چیز چیک ہو ان کا پورا نیٹ ورک ہے میاںوالی کو خاص طور پر پریزائیڈنگ جو تھے ٹیچرز ان سے لے کے فیض نے ایک ایک چیز کو اس حلقے کو پرسنلی اس نے لیا کیونکہ عمران کی ڈائریکشن تھی کہ مجھے اس حلقے کے اندر یہ ریزلٹس چاہئے وہ اس نے کیا، آج آپ انکوائری کریں گے ایک ایک چیز نکلے اب یہ کر کیا رہا ہے ایک نیا ڈراما کہ جی وہ محکمہ جانے اور فیض جانے ہمارا بحث اس کے ساتھ کیا ہے اچھا پھر اس کے جو چاہنے والے جو میڈیا کے اندر جو اس وقت اور میں کئیوں کو پر بھلیہ میں ہنستا ہوں یا تکلیف بھی ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو اس وقت اس کی جوتیاں اٹھا کے سر پہ باندھ کے پھر رہے ہوتے تھے اور جب یہ۔۔
حسن ایوب : فیض کی ؟
خرم روکھڑی : فیض کی اور یہ عمران کی دونوں کی، آج ان کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے خلاف باتیں ہوتے ہیں میرے پاس کچھ دوست بیٹھے ہوئے تھے نام نہیں لیتا انہوں نے کہا کہ لیکن فیض کی ایک کوالٹی تھی کہ اس نے لوگوں کو بہت نوازہ بہت میں نے کہا ایک ہوتا ہے بادشاہ اس خوشی میں آکر اپنا ہار اتار کے دے دیتا ہے میں نے کہا فیض بادشاہ اس نے کس سے نوازہ کس کے پیسے سے نوازہ میں نے کہا دیکھیں اسی طرح نیکسس اور یہ بنتے ہیں کارٹیل جو بنتے ہیں کہ اس نے نوازہ کسی کو فارم ہاؤس لے کے دیا کسی کو گاڑیاں کسی کو کیا باہر کے ویزا یہ چکر ناؤ وہ پورا جو گروپ ہے وہ چاہے گا کہ یہ دوبارہ واپس آئیں تو they were trying to come back اصل جو خطرہ تھا اس ملک کو وہ تھا کہ یہ ملک کے اندر انارکی کریٹ کرکے ایک کریاؤس کو بڑھاکے انہوں نے واپس آنے کی ہر کوشش کر رہے تھے اور ان کی ہر مومنٹ اس ملک کے خلاف تھی میں یہ کہوں گا۔
حسن ایوب : اچھا آپ سے ایک میں آخری question کروں گا یہ بتائےگا کہ عثمان بزدار جو تھا وہ کس کی appointment تھی وہ جنرل فیض کی appointment تھی وہ فرح گوگی کی appointment تھی وہ پنکی پیرنی کی appointment تھی یا وہ عمران خان کی اپنی appointment تھی ؟
خرم روکھڑی : وہ appointment تھی پنکی پیرنی کی، گوگی اس کی اسپانسر تھی، عثمان بزدار کو لیکر وہ لوگ آئے، بزدار ایک بڑا مزیدار سا کیرکٹر تھا جو کہ آپ آج اسلام آباد کے روڈ پر کھڑا کردیں تو شاید ہوسکتا ہے روڈ کراس کرنے میں 20 سے 25 منٹ لگ جائیں، تو he was the right man selected for that اور ایک اور بہت بڑا کیریکٹر تھا جس کا نام تھا ڈی کے ۔۔ یاد آگیا ؟
حسن ایوب : جی آگیا۔
خرم روکھڑی : اس کو پلیس کیا گیا پھر چاہے ٹھیکا مچھلی کا، چاہے ڈی سی کی پوسٹنگ چاہے اسکا عثمان بزدار کے ایک اور کزن بھی تھا وہ بھی تھا۔
حسن ایوب : وہ جو بیوروکریٹ تھا؟
خرم روکھڑی : جی وہ، تو چاہے ٹول پلازے کا ٹھیکا چاہے میانوالی میں ایک دو نمبر فورٹ چھاپڑی ڈیم کے نام کا ٹھیکا یعنی پھر تمام چیز اور ایک چٹ چلا کرتی تھی کیونکہ محترمہ جو تھیں وہ کسٹم سے آئیں تھی۔
حسن ایوب : جی، سابق شوہر جو تھے ۔۔
خرم روکھڑی : جی ہماری باری جو، ہمارے، تو کسٹم میں چٹ چلتی ہے وہ چٹ ایسے بن جاتی ہے اور اس کے اوپر لکھتی آجاتا ہے وہ چٹ چلتی ہے ملیحہ کے پاس ، حسن کے پاس ادھر ہوتے ہوئے واپس آتی ہے جب پیسے جمع ہو جاتے ہیں اور سارا چیز ہو جاتی ہے وہ چٹ واپس آتی ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا وہ چٹ جیسے ہی واپس آتی ہے تو ہر اس کا مطلب کہ ہر چیز سیٹل ہو چکی ہوتی ہے مثال دیتا ہوں مظفرگڑھ بلکسر تک ایک روڈ بننی تھی نہیں بننے دی کچھ عرصے بعد انہوں نے کہا کہ اس روڈ کو دوبارہ جس کو ری کنسٹرکٹ نہیں ہوتی انہوں نے repair and maintenance کے اندر روڈ ڈالی اور اس کے پانچ چھ مثال ہے ٹھیکےدار کر لئے تو۔۔
حسن ایوب : ہر ایک نے اپنی رشوت دےدی۔
خرم روکھڑی : اس میں سے advanced commission لی repair and maintenance کو چیک ہی کوئی نہیں کر سکتا تو اربوں روپیہ جب commission اکٹھا ہو گیا تو وہ چٹ واپس آگئی تو جو first lady یہ توشہ خانا یہ تو اس کی ایسی لالچ ہے جس نے اس کو پھنسایا یہ تو اس کی لالچ ہے۔
حسن ایوب : بس ہاتھی گزر گیا دم میں پھنس گیا یہ دم میں پھنس گئی بیچاری۔ بیچاری کہنا چاہئے ویسے؟
خرم روکھڑی : اصل چیز یہ چٹ تھی چٹ کیسے واپس آتی تھی اس کا گرانٹ ہو جاتا تھا تو X,Y سے،تو عثمان بزدار was a classic good example جس کو انہوں نے کھایا اور اس کے ساتھ انہوں نے پیسہ کھلوایا۔
حسن ایوب : تو آپ کیا سمجھتے ہیں آنے والے دنوں میں یہ اڈیالہ کے چانسلر ہی رہیں گے اڈیالہ کے چانسلر برقرار رہیں گے یا ان کی وجہت ہے یا ملٹری کورٹس میں چلے جائیں گے یا ملٹری کسٹڈی میں جائیں گے؟
خرم روکھڑی : دیکھیں ہمارے لئے کئی دفعہ میں دوستوں سے کہتا ہوں کچھ معاملات میں اسٹیٹ کو روڈ لیس ہونا پڑتا ہے it takes time لیکن خوف جو جائز خوف انگلینڈ کی مثال آپ کے سامنے ہے اس کے ایک لڑکا 18 سال کا وہ اٹھتا ہے اور باہر نکل کر اپنی برتھ ڈے سے اٹھتا ہے باہر نکل کر پولیس والے کو پنچ کرتا ہے 22 منتھ اینٹی ٹیررزم کورٹ ٹرائل ہوتا ہے، 22 منتھ کے اندر اس کا سارا کریئر گیا کچھ ہیومن رائٹس والے ان کے پاس گئے جج نے کہا کہ مجھے مجھے نہیں ہماری ہیومن رائٹس اپنے پاس رکھو میرے لئے میرا ملک ہے۔
حسن ایوب : Law of the land ہوتا ہے وہ مثال بناتے ہیں تاکہ ڈیٹرنس ہو تاکہ لوگ دوبارہ ایسی غلطی نہ کریں۔
خرم روکھڑی : نہ کریں آپ کا جو بچہ ہے جس کے ہم نے کریئر کا سوچنا تھا جس کے ہم نے آگے نسل کا سوچنا تھا آپ نے اس پوری نسل کو تباہ کر دیا اس پاک ظالم میں تو اس کے ساتھ نرمی سوچنا یا کرنا اس ملک کے ساتھ جرم ہے اور یہ جو گرفتاری ہے اس کے بعد افواج پاکستان میں اور چیف آف آرمی اسٹاف یہ ایک کلیر کر دیا ہماری جیسے لوگوں کو ہم ایک اچھے کاز کے لئے ہم نے اسٹینڈ لیا تھا ہم بھی تو کھڑے ہو سکتے تھے ہمیں کیا تھا کہ ہم اس کے خلاف ہو گئے اور ہم مطمئن ہیں اور اس گرفتاری کے بعد انشاءاللہ پاکستان اور مستحکلم ہوگا جو ہم ڈیزوو کرتے ہیں اور اس کو باہر کسی صورت نہیں آنا چاہیے ملٹری کورٹس کے اندر اس کا ٹرائل جانا چاہیے 9 مئی سے ہٹ کے ایک اور بہت بڑا کارنامہ سائفر لہرا کر اس ملک کے ساتھ جو اس نے کیا۔
حسن ایوب : اس کو تو کورٹ نے فارغ کردیا جی۔
خرم روکھڑی: تو کورٹ، ثاقب نثار کا جو ہم نے ڈسکس کیا وہ کیا تھا۔
حسن ایوب : تو موجودہ بھی پروکسیز موجود ہیں آپ کا کہنے کا مطلب یہ ہے۔ تو جی اس کی سائنس تو نظر آرہی ہے بہرہال لیٹس سی۔
ملیحہ خان : بہت بہت شکریہ خرم صاحب آپ کا اور حسن صاحب آپ کا بھی اور حالات و واقعات جو چل رہے ہیں وہ تو وقت ہی بتائے گا آپ نے کہا کہ وقت سب سے بہترین بتانے والا ہے تو ناظرین ہمیں اجازت دیجئے ۔۔ اللہ حافظ ۔