31 جولائی کو جمائمہ اور عمران کا دوست برطانوی صحافی چارلس گلاس اپنے ھوٹل کے کمرے میں بیٹھا اسلام آباد کی بارش کا نظارہ لے رھا تھا،اسکے ہاتھ میں گرم کافی کا کپ تھا، جس کی ہلکی ہلکی چُسکیاں اُسے بارش کا مزید مزہ دے رھی تھیں آ ان اس کے دروازے ہر دستک ھوئی اور پھر دروازہ کُھلا…
پانچ چھ خوبصورت جوان کمرے میں داخل ھوئے، اور ان میں سے دو نے انگریزی میں اپنا تعارف چارلس گلاس کو کروایا اور اس سے گفتگو شروع کی، اس کا حال پوچھا، پاکستان کے لوگوں، اسلام آباد کے موسم، ھوٹل کے کھانوں اور لوگوں کی چارلس گلاس سے محبت کا پوچھا، ہر بات کا جواب چارلس گلاس نے
یہ کہہ کر دیا کہ پاکستان کی ہر چیز مجھے بے حد پسند آئی، لوگ کھانے، ھوٹل، دارالحکومت، مہمان نوازی ہر چیز بہترین تھی، جب یہ گفتگو ختم ھوئی تو چارلس گلاس کو ایک جوان نے کہا کہ اپنا سامان پیک کریں اور ہمارے ساتھ ائیر پورٹ چلیں کیونکہ آپ کا ویزا کینسل ھو گیا ھے، چارلس گلاس
حیران ھو گیا اور کہنے لگا کہ میں تو عمران خان سے جیل میں ملاقات کرنے کے لئے برطانیہ سے آیا ھوں اور میں نے آپ کی عدالت سے ملاقات کی اجازت لی ھے، اور پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی کو ای میل کی ھے کہ میری ملاقات کروائی جائے، میرا ویزا کیسے کینسل ھو سکتا ھے ، جواب میں
ایک جوان نے کہا کہ ہم مہمان نواز بھی بہت اچھے ہیں اور اگر ہمیں ویزا دینا آتا ھے تو ویزا کینسل کرنا بھی آتا ھے، یہ ہمارا ملک ھے کسی گوری چمڑی والے کے کسی رشتے دار کا گھر نہیں کہ وہ برطانیہ سے آئے اور جیل میں قید ہمارے قیدی سے انٹرویو کر کے اپنے ملک واپس جا کر اپنی
مرضی سے کچھ بھی چھاپ دے اور پاکستان کے چہرے پر کالک مل دے.. اس لئے آپ کا ویزہ کینسل کر دیا گیا،اگلے پانچ منٹ میں ہمیں ائیرپورٹ نکلنا ھے ، جلدی کیجئیے، پانچ منٹ بعد ھوٹل کے مین دروازے سے وہ سارے جوان چارلس گلاس کو لے کر باہر نکلتے ہیں اور گاڑیاں ائیرپورٹ کی طر
روانہ ھوتی ھے، راستے میں بھی سارے جوان چارلس گلاس سے خوش گپیاں کرتے ہیں اور پھر ائیرپورٹ پہنچتے ھی اس کا ایک عربی ائیر لائن پر بورڈنگ پاس لیتے ہیں اور جہاز کے عملے کو کہتے ہیں کہ ان کو لندن سے پہلے کہیں نہ اتارا جائے.. سارے جوان چارلس گلاس کو جہاز کی طرف
جانے سے پہلے Good Bye کہتے ہیں اور جہاز اپنے مقررہ وقت پر اڑ جاتا ھے
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ جوان کون تھے، مگر یہ بتانا ضروری ھے کہ عمران نیازی پر سے اب دباؤ کم نہیں کیا جائے گا